سہون شریف دھماکہ: ایک اور مذمتی کالم کا آغاز


\"\"اس تحریر میں بھی وہی سب باتیں ہوں گی جو اس سے پہلے بھی کئی بار آپ سب پڑھ چکے ہیں۔ وہی قتل و خون کا بیان، وہی زخمیوں کی بےچارگی، تڑپ، تکلیف، اور لاچاری، اور علاج میں تاخیر۔ مرنے والوں کے اعضا کا بیان، ان کی کسمپرسی، اور لواحقین کے دکھ، بین، آہیں سسکیاں، اور غم و اندوہ۔ پھر علاقے کا محل وقوع، اسپتال، شفاخانوں، بنیادی صحت کے مراکز، ڈسپنسریوں، ڈاکٹر نرسوں اور طبی عملے کی عدم موجودگی کی شکایت۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاپرواہی، سیکورٹی میں کمی کا رونا، حفاظتی اقدامات کا نہ ہونا، پہلے سے دہشت گردی کے خطرات پر روشنی ڈالنا اور پھر ملکی سیاست پر تنقید، حکومتی ارباب اختیار کی بے حسی، وزرا کے لتے لینا، برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال کر عالمی سیاست، صیہونی سازشیں، بھارت، را، دیگر ایجنسیاں اور پھر تان آ کر ٹوٹے گی طالبان پر، کیونکہ ان سطروں کے تحریر کرنے تک ذمہ داری کوئی طالبان گروپ قبول کرچکا ہوگا۔

ایسی کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کے بعد یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ بلکہ اب تو کچھ نیا لکھنے کو بچا ہی کہاں ہے اور مطلق ضرورت بھی نہیں رہی۔ کیونکہ عرصے، عشرے سے صرف مقام کا نام، ہلاکتوں کی تعداد نیز زخمیوں کی تعداد میں تبدیلی کر کے ایک ہی مذمتی بیان ہر دہشت گردی کی واردات پر صادق آجاتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ایسے سینکڑوں واقعات کے باوجود ان دو چار اعدادو شمار اور نام و مقام کے سوا کچھ بدلا بھی کب ہے۔ ہاں بتدریج ایک تبدیلی آئی ہے اور وہ یہ کہ ہم روز بروز مزید سے مزید بے حس ہوتے جا رہے ہیں۔ اب ایسے کسی سانحے پر آنکھیں نہیں بھیگتی ہیں نہ ہی ملک بھر میں صف ماتم بچھتی ہے نہ ہی ان سب کے تدارک کے لیے ضروری اقدامات ہی ہوتے ہیں۔ ہاں بس سوشل میڈیا پر ڈی پی سیاہ ہوجاتی ہے، مذمتی ٹویٹس اور اسٹیٹس لکھے جاتے ہیں لیکن عملاً ہم وہیں کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے پر طنز کرتے کیچڑ اچھالتے اور نفرتوں کو بڑھاوا دیتے۔

لیکن حل کیا ہے؟ کیا اب بھی حل نہ سوچا جائے گا؟ کیا اب بھی ہم اسی طرح کام لپیٹ کر بیٹھ جائیں؟ عوامی مقامات پر جانے سے گریز کریں؟ عبادات گھر میں انجام دیں؟ بچوں کو اسکولوں سے چھٹی کروائیں؟ اور خود بھی کام پر جانے سے رک کر گھر بیٹھ جائیں؟ کیا یہی حفاظتی تدابیر ہیں؟ کیا ایسے معاملات زندگی چل سکیں گے؟ ہم بھوکے رہیں گے تن پر کپڑے خریدنے قابل نہ ہوں گے لیکن جان، ہاں شاید جان محفوظ ہوجائے۔ لیکن کیا یہ حل ہے؟

آخر حل کیا ہے؟ کیا اپنی ذمہ داری محسوس کر کے عوامی مقامات پر نظر رکھنا، جہاں کہیں سیکورٹی میں کمی نظر آئے اس کے لیے آواز اٹھانا۔ لیکن ہماری سنے گا کون؟ چلیں نہ کوئی سنے آواز تو اٹھاتے چلیں، چوکس رہیں آنکھیں کھلی رکھیں۔ ایسا کیوں ہے کہ دہشت گرد ہم سے زیادہ ذہین، چالاک اور ہوشیار ہیں؟ ان کے پاس نہ صرف جدید ٹیکنالوجی اور علوم ہیں بلکہ اس کے استعمال سے بھی واقف ہیں۔ تو ہم کہاں ہیں۔ مانا وہ جنونی ہیں، ہلاکت خیز ہیں، قاتل ہیں، سفاک ہیں، لیکن جانور بھی اپنی حفاظت کے لیے محتاط ہوتے ہیں نا! ان کا دشمن جتنی طاقت سے حملہ آور ہو وہ اسی مطابق اپنی حفاظت کے لیے اپنے ماحول کو ڈھال لیتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں۔ ہم کیوں بکھرا ہو اریوڑ بنے ہوئے ہیں؟

دشمن تو اسفل المخلوقات ہیں۔ ہم کس مقام پر ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments