جب ترازو کا لفظ یا شکل میرے ذہن میں آتی ہے تو براہ راست وہ میرے پہلو میں  تحقیق کی شمع کو روشن کرتی ہے- اور وہ میری تحقیق کی نگاہ سے ہرگز اوجھل نہیں ہوتی کیونکہ ترازو کا تعلق بنیادی طور پر کسی بھی معاشرے کے ساتھ کسی نہ کسی رنگ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے- اس وقت میرے ملک کے بڑے بڑے جاگیردار , سیاستدان,  قانون دان,  لیڈر  اور  ججوں کے ہاں بھی اس ترازو کی گونج اور گرج بہت زیادہ زور و شور سے جاری ہے – بات تو بالکل آپ بھی سمجھ گئے ہوں گئے-
میری مراد ترازو میرے معاشرے میں توازن اور انصاف کی علامت سمجھا جاتا تھا  اور ہے- جو ہماری عدالتوں اور ان کے مین دروازے پر نظر بھی آتا ہے- لیکن میں حیرانی سے یہ کہتا ہوں , جس نے اس کو ان عدالتوں کے سامنے نصب کرنے کا عہد کیا تھا , جو اس وقت اس کے ذہن میں تصور چل رہا تھا, اس کو پتہ تھا کہ یہ قوم اس ترازو سے دنیا کا وہ کام کرے گی جو نصب کرنے والے کے گمان میں بھی نہیں تھا- او بھائی جان بات تو سیدھی اور صاف ہے – براہ راست ہر فرد اور معاشرے کے فریق پر عیاں ہوتی ہے-
کسی عام آدمی نے مولوی صاحب سے کہا:
    ” میاں جی  کھیر پکی  اے”
میاں صاحب نے جواب دیا:
    ” سانوں کی” ؟
آدمی نے جواب میں کہا:
 ” میاں جی تواڈے واسطے پکی ہے”
تو میاں جی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا :
    ” فیر توانوں کی”
یہاں پر بھی کچھ اسی طرح کا سلسلہ وجود میں آ چکا ہے جو مختلف علامتوں اور استعاروں کے مارے نظر آتا ہے – اب ترازو کا دوسرا پہلو دیکھیں تو چیز /  سودا کو پیسوں کی ضرورت کرنا بھی ہوتا ہے-
جو اس ترازو نصب کرنے والے کے گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ قوم ہر چیز کا دوسرا اور منفی پہلو پہلے لیتی ہے- جب اس پہلو  کی تحقیق اور جانچ پڑتال کرنے کی کوشش کی تو پھر میں سمجھا کہ پاکستانی عدلیہ کا دنیا کے 128 نمبر پر آنا اسی پہلو کا نتیجہ ہے- یہ کوئی عام بات نہ ہے کیونکہ یہاں پر پیسوں کے بدلے  خریدوفروخت عام ہے-
اگر کوئی یہ سوچے کہ جو تحریر پڑھی جارہی ہے غلط ہے تو یہ اس کی فہم کا قصور ہے- اور اس بے وقوفی کی وجہ سے اپنی قوم اور عدلیہ کو پوری دنیا میں مشہور کر رہا ہے کیونکہ :
جس معاشرے میں کتابیں فٹ پاتھ پر, اور جوتے شیشوں میں سجائے جائیں اس قوم کو کتابوں کی نہیں بلکہ جوتوں کی ضرورت ہے-
اب بھی یہ کوئی کہے یہ غلط ہے تو اس کی سوچ پر یہ انحصار کرتا ہے- میں خود اس عدلیہ کا حصہ تھا وہ سب کچھ دیکھ چکا ہوں جو ترازو کا دوسرا حصہ اور پہلو ہر عدالت کے دروازے پر کھڑا کسی رنگ اور روپ میں خرید و فروخت کر رہا ہوتا ہے- گاہک کی بولی اور کریڈٹ کارڈ کی فراوانی فراہم کرتا ہے-
    سنا تھا پہلا سبق ہے انسانیت کا
   یہاں تو سما ہر طرف حیوانیت کا
   لاکھ چرچا ہے لباس کا زندگی میں
   ظالم نگاہ نے بدلہ محور معنویت کا
تنقید کے لئے علم کا ہونا لازم ہے جبکہ نقطہ چینی کے لیے جہالت ہی کافی ہے- یہی وجہ ہے  کے  آج ہمارے بڑے بڑے لیڈر,  سیاستدان, قانون دان حقیقی اخلاقیات کو کھو چکے ہیں- اس کا نتیجہ خود غرضی , ذاتی مفادات  اور تفریق ہے- امیر کے لیے اتوار کے دن بھی عدالت لگا کر کیس دائر ہو جاتے ہیں , چھٹی والے دن بھی ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر سب کچھ بلا دیا جاتا ہے کیوں کہ ترازو کا دوسرا پہلو خریدوفروخت بھی ہے- اب تو ترازو لگانے والا بھی یہی سوچ رہا ہوگا کتنی بڑی غلطی کی ہے میں نے, مگر اسے کیا خبر تھی یہ قوم آج بھی اپنے ذہنوں کے اندر  غلامی کی زنجیریں بندھے ہوئے ہیں- یہاں سے دو قومی نظریے کو فراوانی دے رہے ہیں-  انیس سو سینتالیس ( 1947) سے قبل کا دو قومی نظریہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں- لیکن اس کے بعد کا دو قومی نظریہ ایک ہی ریاست میں دو قانون یعنی امیر و غریب کا قانون- اگر کوئی  اس معاشرے کی حقیقت سے پردہ چاک کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر یہی سوال گندم , جواب چنا شروع کر دیتے ہیں- میرا یہ کہنا ہے:
اگر آپ حادثاتی طور پر دو چار کتابیں ہم سے زیادہ پڑھے گئے ہیں تو ان کو ہضم کرنے کی کوشش کریں دوسروں کا جینا حرام مت کریں-
جس کے کان ہوں وہ سن لے جس کی آنکھ ہے وہ دیکھ لے-