تیز ترین ترقی اور موسمیاتی تغیرات


آج میں جس اہم موضوع پر بات کرنا چاہ رہی ہوں اس پر ہم عموماً بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ہم انسانوں کا ہی پیدا کردہ ہے انسان کی بے پناہ ترقی کرتی معیشت اور آسان ترین آسائش زندگی نے جہاں دنیا کو جدید ترین بنا دیا ہے اور دنیا کو نئے موسمیاتی تغیرات سے بھی دوچار کر دیا ہے اس وقت دنیا کا ہر ملک اپنے طول و عرض میں متاثر کن موسمیاتی تبدیلی اور خاص طور پر منفی تبدیلیوں کا شکار ہو رہا ہے جس سے نہ صرف انسانی صحت، سمندری، جنگلی حیات بھی متاثر ہو رہی ہے۔

سطح سمندر بتدریج بلند ہو رہی ہے اور مو سمی واقعات زیادہ شدید ہوئے جا رہے ہیں چونکہ سطح سمندر بڑھ رہی ہے اور برف پگھلنے کی وجہ سے سمندروں میں توسیع مسلسل عمل بنتا جا رہا ہے آرکٹک کی سمندری برف کی حد 1979 کے بعد سے ہر لگا تار دہائی میں سکڑ گئی ہے۔ ہر دہائی میں 1 ایک اعشاریہ صفر سات فیصد ملین کلو میٹر مربع برف کا نقصان ہوتا جا رہا ہے جو کہ بذات خود ایک الارمنگ صورتحال ہے۔

اسی لئے اقوام عالم نے اپنے مشترکہ سترہ اہداف میں موسمیاتی محرک کے نام سے تیرہویں نمبر پر موسمیاتی تحفظ کے حوالے سے دنیا کو محفوظ رکھنے کے لئے اس کو شامل کیا ہے اس کا مقصد خاص طور پر موسمیاتی خطرات اور قدرتی آفات کے لیے لچک اور موافقت کی صلاحیت کو مضبوط کرنا ہے اس طرح کے حالات موسمیاتی تبدیلی کے اہم کنارے کی نمائندگی کرتے ہیں ان کی تعداد اور شدت بھی بڑھ رہی ہے جو کہ لمحہ فکریہ بھی ہیں۔

آئیے پہلے اس کے اثرات پر ایک نظر ڈالتے ہیں

ہم سب اچھی طرح یہ جانتے ہیں کہ دنیا میں آئے صنعتی انقلاب کے بعد سے ہماری زمین کی آب و ہوا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور ہمارے اپنے انسانی اعمال اس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے فروغ میں اپنا اہم کردار بڑے ہی منفی انداز میں ادا کر رہے ہیں اور جدید سائنسی انقلاب نے اس میں اپنا اہم منفی کردار بھی ادا کرنا بھرپور طریقے سے شروع کر دیا ہے۔

یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم یہ فرق اچھی طرح سمجھ لیں کہ موسم طبعی خصوصیات کی ایک سیریز پر مشتمل ہے جیسے درجہ حرارت، بارش، ہوا رفتار اور بہت سی دوسری خصوصیات جو موسموں، دنوں یا گھنٹوں کے حساب سے بدلتی ہیں جب ہم طویل مدت 30 سال یا اس سے زیادہ کے موسم پر غور کرتے ہیں تو یہ آب و ہوا کے بارے میں بات کر نا ہوتا ہے۔

ہماری آب و ہوا ہزاروں سالوں سے بدل رہی ہے اور زمین تقریباً 1880 کے بعد سے تیزی سے گرم ہو رہی ہے گرین ہاؤس گیسز جو زمین اور ماحول کو گرم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں بڑھ رہی ہیں۔

صنعتی انقلاب کے بعد سے ہم توانائی کی ہماری بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے بے تحاشا فیول استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پچھلے دو سو سالوں میں ہم انسانوں نے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں تقریباً 46 فیصد اضافہ کیسا ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ آب و ہوا کا متاثر کرنے والا واحد عنصر نہیں ہے اس کے عوامل میں کئی اور عوامل بھی ہیں۔

یہ بہت اہم ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 60000 افراد ہر سال قدرتی آفات سے مر جاتے ہیں جو کہ مجموعی طور پر قدرتی آفات سے ہو نے والی اموات عالمی اموات کا تقریباً صفر اعشاریہ فیصد ہے۔

ایک مستند ادارے کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی منفی تبدیلیاں ہماری صحت اور ہمارے سیارے زمیں کے لئے ایک سنگین اور بڑھتا ہوا خطرہ ہیں جب لوگ موافقت کرتے ہیں تو فطرت کو تباہ کرتے ہیں، انسانی، حیوانی اور نباتاتی حیات کو خطرات سے دوچار کرنا اور ماحول کو گیسز کے اخراج کے ذریعے آلودہ کرنا وغیرہ جیسی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔

سائنسدانوں نے نشاندہی کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی عالمی رجحانات کے ساتھ تعامل کرتی ہے جیسے کہ قدرتی وسائل کا غیر پائیدار استعمال بڑھتی ہوئی شہر کاری، سماجی عدم مساوات، انتہائی اہم واقعات کے ہونے والے نقصانات اور وبائی بیماری، مستقبل کی ترقی کو خطرے سے دوچار کر دیتی ہے۔

اب ہم بات کرتے ہیں ان مسائل کے سد باب کی ہم یہ جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک چیلنج ہے ہم اس سب میں اپنا مثبت کردار ہو نا چاہیے ہم جانتے ہیں کہ شہر موسمیاتی کا روائی کے مواقعے بھی فراہم کرتے ہیں سبز عمارتیں، صاف پانی اور قابل توانائی کی قابل اعتماد فراہمی اور شہر اور دیہی علاقوں کو جوڑنے والے پائیدار ٹرانسپورٹ سسٹم سب ایک سے زیادہ جامع، منصفانہ معا شرے کی طرف لے جا سکتے ہیں یا مثال ہو سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں ہمیں کچھ اہداف پر عمل کرنا ہو گا کیونکہ تمام اہداف موسمیاتی کارروائی کے تمام پہلووں کے مسائل کی ایک وسیع رینج کا احاطہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے لچک اور مطابقت کی صلاحیت کو مضبوط کرنا۔

یعنی دنیا کے تمام ہی ممالک میں موسمیاتی خطرات اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرنا اور موجودہ صلاحیت کو مضبوط کرنا شامل ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مقامی حکومتوں کے ذریعے شعور اجاگر کرنا اور اس تناسب کو کم کرنا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقصانات جیسے کہ اموات، لاپتہ افراد، متاثرہ افراد وغیرہ۔

مختلف حکمت عملیوں اور تغیرات پر عمل درآمد کروانا کہ نقصانات کا تناسب کم سے کم ہو۔

اس کے علاوہ عام، سادہ اور فطری زندگی پر عمل درآمد کرنا بھی موسمیاتی منفی اثرات سے بچنے میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے بناوٹی اور غیر فطری طرز زندگی ہمیں ایک لا متناہی مسائل والی زندگی میں دھکیل دیتا ہے اور شعور آنے تک ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔

اسی طرح ہی ہم اپنی اس خوبصورت دنیا کو اس کے اصل حسن کے ساتھ جی سکیں گے اور یہی اس روئے زمین کے تمام ہی ممالک کی آرزو اور خواہش بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments