”سنگل نیشنل کریکولم“ پر ہمارے اعتراضات


یکساں قومی نصاب تعلیم یا سنگل نیشنل کریکولم یا کسی قسم کے قومی نصاب پر ہمارے اعتراضات آئین تقاضوں کے حوالے سے بھی ہیں، معیار تعلیم کے حوالے سے بھی ہیں اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی۔

‏پہلی بات یہ ہے کہ جس طرح باور کرایا جاتا ہے سنگل نیشنل کریکولم طبقاتی تفریق ختم کرنے کے لئے نہیں ہے۔ تعلیم میں اگر طبقاتی تفریق ختم کرنی ہے تو تعلیم کے لئے بجٹ میں جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد رقم مختص کرنا ضروری ہے تاکہ سرکاری سکولوں میں کم از کم بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسے پانی، پنکھا، باتھ رومز، لیبارٹری، کھیل کا میدان اور لائبریریوں کا بندوبست کیا جا سکے۔ تب کہیں جاکر سرکاری اور اشرافیہ کے لئے بنائے گئے سکولوں کے تعلیمی ماحول میں تفریق ختم ہونے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح سرکاری سکولوں میں تدریسی نظام اور امتحانات کے نظام پر بھی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔

‏سنگل نیشنل کریکولم کے حق میں دوسری دلیل یہ لائی جاتی ہے کہ یہ نصاب مدارس میں بھی نافذ کیا جائے گا اس وجہ سے یکسانیت پیدا ہو جائے گی۔ مدارس کو مین سٹریم میں لانا ضروری ہے تاکہ یہاں سے فارغ التحصیل بچے ملازمتوں، کاروبار اور معاشرے میں ایسا ہی کردار ادا کرسکیں جس طرح عام سکولوں سے فارغ التحصیل بچے کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ تب ہو سکتا ہے جب مدارس کو این جی اوز کی طرح رجسٹر کرنے یا اوقاف کے زیر انتظام چلنے کی بجائے وزارت تعلیم کے تحت لایا جائے۔ یہ چند کتابیں متعارف کرنے سے نہیں ہو گا۔ سنگل نیشنل کریکولم دراصل سکولوں کو مدارس میں ضم کرنے کا عمل ہے۔

‏سنگل نیشنل کریکولم کا تعلق معیار تعلیم سے بھی نہیں۔ تعلیمی معیار ٹیچنگ کا معیار بڑھانے، اساتذہ کے لئے مسلسل تربیت کا انتظام کرنے، امتحانی نظام کو اوور ہال کرنے اور تعلیمی انتظام کو شفاف بنانے سے ہو سکتا ہے۔ اس طرح کا کوئی پلان نیشنل کریکولم میں بالکل بھی موجود نہیں۔ بہتر سے بہتر مواد بھی غیر معیاری تدریس سے غیر موثر ہوجاتا ہے۔

‏دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں صرف تعلیمی سٹینڈرڈز کے کم از کم نکات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بارہ سال کے بچے کو ریاضی، سائنس، زبانوں اور جغرافیہ میں آزمائش کے لئے کتنا مواد کس طرح آنا چاہیے۔ باقی تمام صوبوں، علاقوں اور ریاستوں میں اپنے اپنے تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب میں مکمل آزادی ہوتی ہے اور اس میں بہت تنوع ہوتا ہے۔ میں نے آسٹریلیا، جاپان، انڈیا اور برطانیہ کے تعلیمی نظاموں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ کیمبرج اور لندن یونیورسٹیاں ساتھ ساتھ ہیں لیکن دونوں یونیورسٹیوں کے ساتھ Affiliated سکولوں میں دسویں اور بارہویں جماعتوں کے نصاب میں اتنا فرق اور diversity ہے کہ لگتا ہے کہ یہ دو مختلف ملکوں کے نصاب ہیں۔

‏اگر پاکستان کے پالیسی ساز کم سے کم سٹینڈرڈ بنانے میں مخلص ہیں تو اس کے کے لئے آئینی راستے موجود ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس یا پھر صوبائی رابطہ کمیٹی کے اجلاس بلائے جا سکتے ہیں اور اس میں تعلیمی ماہرین سے مشاورت ہو سکتی ہے لیکن اسلام آباد تو سے کسی نیشنل کریکولم کا یا نیشنل کریکولم سمٹ کا اعلان کرنا ہر لحاظ سے غیر منطقی بھی ہے اور غیر آئینی بھی۔ یہ صوبائی خودمختاری پر بہت بڑا وار ہے۔ اس لیے کہ آئین میں تعلیمی پالیسی، تعلیمی منصوبہ بندی، تعلیمی نصاب اور تعلیمی گورننس صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اسلام آباد سے کریکولم یا کریکولم کے سمٹ کا اعلان مقصد معیار کو بلند کرنا یا طبقاتی تعلیم کا خاتمہ نہیں بلکہ صوبائی خودمختاری پر ضرب لگانا ہے۔

‏ایک اور اہم بات یہ ہے کہ صوبوں، مختلف مذاہب کے لوگوں اور مختلف علاقوں کے متنوع تہذیبی ورثے، ثقافتوں، زبانوں، عقائد اور تاریخ کو سنگل نیشنل کریکولم سے نکال باہر کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کی آئین کے آرٹیکل 20 سے لے کر آرٹیکل 24 تک کی خلاف ورزی ہے جہاں تمام مذاہب کے بچوں کو ان کے مذہب کی تعلیم دینا ان کا بنیادی حق مان لیا گیا ہے اور تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔

”یکساں نصاب تعلیم“ کی یکسانیت ثقافتی، مذہبی، نسلی، لسانی اور تہذیبی تنوع اور شناختوں کو ملیامیٹ کرنا ہے۔ یہ بہت خطرناک عمل ہے۔ دنیا کے تمام ماہرین اس پر متفق ہیں کہ لسانی، ثقافتی اور تہذیبی تنوع اور رنگارنگی بہت بڑی دولت ہے اور اس دولت کو یکسانیت کے نام پر ختم کرنے کے تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔ اسی پالیسی کی وجہ سے انتہا پسندی اور فرقہ پرستی پروان چڑھی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بنگال اس لئے بنگلہ دیش نہیں بنا کہ تنوع کو تسلیم کیا گیا تھا بلکہ اس وجہ سے بنا کہ ان کی متنوع لسانی شناخت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہی صورتحال بلوچوں کی بیگانگی کی بھی ہے۔ ان کی تہذیبی، نسلی، قومی اور ثقافتی شناخت، مساوی نمائندگی اور وسائل کے حق کو تسلیم نہ کرنے کے نتائج آج پورا پاکستان بھگت رہا ہے۔

ڈاکٹر خادم حسین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خادم حسین

(خادم حسین پانچ کتابوں کے مصنف ہیں اور @khadimHussain 4 پر ٹویٹ کرتے ہیں۔ )

khadim-hussain has 9 posts and counting.See all posts by khadim-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments