نواز شریف کا پاکستان واپس آنے کا فیصلہ


شہباز شریف کی حکومت قائم ہونے کے ایک ماہ بعد لندن میں مسلم لیگ (ن) کا غیر معمولی اعلیٰ سطح کا اجلاس لندن میں نواز شریف کی صدارت میں منعقد ہو چکا ہے۔ یہ اجلاس نواز شریف نے طلب کیا تھا۔ وفاقی کابینہ کے کم و بیش تمام ارکان کی ”بارات“ اجلاس میں شرکت کے لئے لندن پہنچ گئی جس کے باعث تین چار روز تک کار سرکار معطل رہا اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں کا تاحال کوئی اعلان نہیں کیا گیا تاہم باور کیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے 10 اپریل 2022 ء کے بعد ملکی سیاسی منظر میں ہونے والی تبدیلی کے تناظر میں عمران خان کے خلاف جارحانہ سیاست کا فیصلہ کیا ہے۔

ویسے تو عمران خان کا مقابلہ مریم نواز کر ہی رہی ہیں۔ وہ اب تک عمران خان کے جلسوں کے مقابلے میں بھرپور جلسے کرچکی ہیں لیکن سیاسی حلقوں میں پاکستان میں نواز شریف کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کے لئے سیاسی میدان کھلا نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے چونکہ نواز شریف ”سزا یافتہ“ ہیں اور وہ ضمانت پر رہا ہو کر بیرون ملک علاج کے لئے گئے ہیں۔ اس لئے نواز شریف واپسی پر سب سے پہلے کوٹ لکھپت جیل ہی جائیں گے۔ تاہم انہوں نے ڈاکٹروں کی ایڈوائس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے آپ کو قانون کی عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے پر اتفاق رائے کیا گیا ہے۔ نواز شریف کی سزا ختم کرانے کے ساتھ ساتھ یہ ایک سیاسی فیصلہ بھی ہے۔ فی الحال اقتدار سے معزولی کے بعد عمران خان سیاسی میدان میں اکیلے دندناتے پھر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے۔ ”گلیاں ہو جاون سونجیاں وچ مرزا یار وچ پھرے“ (گلیاں سونی ہو جائیں اور وہاں مرزا یار پھرے ) کی صورت حال ہے۔

بظاہر سیاسی طور ان کو کسی جانب سے کسی چیلنج کا سامنا نظر آ رہا ہے کہ اچانک مریم نواز کی ”دبنگ“ انٹری ہوئی ہے۔ نواز شریف نے فوری طور پر مریم نواز کو عمران خان کے خلاف جوابی جلسے کرنے کے لئے میدان میں اتار دیا ہے اگرچہ عمران خان کے جلسوں کا بڑا ”شور شرابا و غلغلہ“ ہے اور وہ بار بار جلسوں میں عوام کو 20 مئی 2022 کو اسلام آباد کے لئے نکلنے کی کال دینے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ بظاہر ان کے جلسوں کا مقصد ملک میں فوری طور پر انتخابات کرانے کے لئے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنا ہے۔

سر دست حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ان کے ”جلسہ جلسہ“ کھیل سے مرعوب نہیں ہوئی ہے بلکہ عمران خان کے سیاسی کھیل کا گہرائی سے جائزہ لے رہی ہے۔ تاحال حکومت عمران خان کو جلسہ و جلوس سے روک نہیں رہی لیکن میری اطلاع کے مطابق حکومت نے ریڈ زون اسلام آباد میں لوگوں کا اکٹھ نہ ہونے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام ٓباد کی جانب سیاسی قافلوں کو بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہے۔ سب سے زیادہ لوگ خیبر پختونخوا سے آنے کا امکان ہے۔ اس لئے خیبر پختونخوا سے آنے والے قافلوں کو روکنے کے لئے ”چوہدری نثار علی خان حکمت عملی“ اختیار کی جائے گی جو انہوں نے یکم نومبر 2016 ء کو پختونخوا سے آنے والے سیاسی لشکر کو روکنے کے لئے استعمال کی۔

نواز شریف جو کم و بیش پچھلے 3 سال سے لندن میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عمران خان کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسی مقصد کے پارٹی کی اعلی قیادت کو لندن طلب کر لیا عمران حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے تمام بڑے لیڈر ای سی ایل پر تھے۔ اب وہ آزادانہ طور پر اپنے قائد نواز شریف سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ نواز شریف جنرل پرویز مشرف دور میں سعودی عرب اور برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر چکے ہیں لیکن آمر مطلق نے ان کی وطن واپسی کے تمام راستے بند کر رکھے تھے۔ اب وہ وطن واپس آ کر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔

ان کے وطن واپس آنے سے جہاں ان کی اپنی جماعت کے کارکنوں کا سیاسی مورال بلند ہو گا۔ وہاں عمران خان کی ”مقبولیت“ کے گراف کو چیک کرنے کے لئے نواز شریف کی موجودگی سے پی ڈی ایم مضبوط ہو گی۔ سر دست مریم نواز تنہا عمران خان کے جلسوں کے مقابلے میں جلسے کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف شانگلہ اور مریم نواز صوابی میں بڑے جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ یہ جلسے مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام کے زیر اثر مقامات پر منعقد ہوئے ہیں۔ جہاں امیر مقام بار ہا اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ وہ اس علاقے کے بے تاج بادشاہ ہیں۔

بظاہر حکومت 10 اپریل 2022 ء کے بعد عمران خان کی ”یلغار“ کا اس جوش و خروش سے جواب نہیں دے رہی جس طرح اپنے قیام کے بعد جلسے جلوس منعقد کرتی رہی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے۔ پی ڈی ایم عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد ”خوابیدہ“ ہو گئی ہے۔ مریم نواز پی ڈی ایم کو ”بیدار“ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے مستقبل قریب میں آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کر رہی ہیں۔

اگرچہ 10 اپریل 2022 ء کو عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی ہے لیکن تاحال ان کی ”باقیات“ شہباز شریف حکومت کے لئے معمول کے مطابق کام کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔ وفاقی وزارت قانون و انصاف آئین شکنی کے مرتکب افراد کے خلاف ریفرنس کی تیاری میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی کہا ہے کہ حکومت نے آئین شکنوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے کوئی کارروائی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ہی کی جائے گی جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا عمران خان کو گرفتار کیا جائے گا تو ان کا جچا تلا جواب ہوتا ہے کہ ”جس کی گرفتاری بنتی ہے۔ اسے ضرور گرفتار کیا جائے گا“

اگرچہ پی ڈی ایم قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن اب اس کا موقف یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ وہ ڈیڑھ سال کی مدت مکمل کر کے ہی مقررہ تاریخ پر انتخابات کرانا چاہتی ہے۔ الیکشن کمشن بھی کہہ چکا ہے کہ آئندہ 7 ماہ میں مردم شماری مکمل ہونے کے بعد ہی انتخابات کرانے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ ایوان صدر کے ”مکین“ اور حکومت کے درمیان ٹھن چکی ہے۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران صدر مملکت اپنی دانست میں حکومت کی خوش اسلوبی سے تبدیلی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ اس پر ان کے خلاف پارلیمنٹ میں آئین شکنی پر قرار داد منظور ہونا غیر معمولی واقعہ ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے۔ حکومت صدر مملکت کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کرنے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ تحریک مواخذہ کی منظوری کے لئے مطلوبہ تعداد پوری کرنے پر کام ہو رہا ہے۔

پچھلے چند دنوں کے دوران یہ بات محسوس کی گئی ہے۔ سیاسی حلقوں میں نئے آرمی چیف کی تقرری کو موضوع گفتگو بنایا جا رہا ہے جس کا عسکری قیادت نے سخت نوٹس لیا ہے اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے پشاور کور کمانڈر سے متعلق بعض سینئر سیاست دانوں کے حالیہ بیانات کو انتہائی نامناسب قرار دیا ہے۔ فوج کے ترجمان کی جانب سے یہ بیان ایک ”وارننگ“ سے کم نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ملکی سیاست میں فوج کو گھسیٹنے والے عناصر کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لاتی ہے اور کس طرح اس کا تدارک کرتی ہے۔ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں مل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments