مقدس گائے اور آپریشن رد الفراڈ


مجمع اہل حرم نقش بہ دیوار ادھر
اور ادھر شور مچاتا ہوا، بکتا ہوا میں!
کوئی بھی تجربہ زندگی میں پہلی بار کیا جائے تو اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ آخری اطلاع تک پچھلی تحریر قریب پانچ ہزار بار پڑھی جا چکی ہے، چودہ سو لوگوں نے پسند کیا، حمایت کی، بہت سے معزز دوستوں نے حوصلہ افزائی کی۔ ہماری ناقص رائے میں یہ تجربہ خاصا کامیاب گیا۔ اب سچ تو یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ پانچ ہزار مختلف لوگوں نے اس تحریر کو وقت دیا یا جن چالیس افراد کو اس سے شدید اختلاف ہے وہی پانچ ہزار بار ، بار بار پڑھتے رہے ؟ واللہ بصواب۔ اختلاف رائے ایک بنیادی حق ہے مگر اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اگر اختلاف رائے میں شائستگی اور رواداری کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو بات کا حسن توازن برقرار رہتا ہے اور اختلاف کرنے والے کی تربیت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے یا یوں کہیے کہ پول کھل جاتا ہے۔
صاحبان فہم و دانش، جیسا کے آپ جانتے ہیں کہ بہت سی باتیں ہمارے ہاں ’مقدس گائے‘ کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان پہ سوال اٹھانا تو درکنار انگلی اٹھانا بھی کفرعظیم کے زمرے میں آتا ہے۔ مطالعہ پاکستان میں شامل مسخ شدہ تاریخ پر بے اطمینانی کا اظہار کیا تو بات دو قومی نظریہ تک جا پہنچی۔ کاش اے کاش قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کو پڑھایا جائے بلکہ رٹایا جائے جس طرح امریکہ میں ہر بچے کو ابراہم لنکن کا گٹیسبرگ خطاب ازبر کرایا جاتا ہے۔
اس تاریخی خطاب میں قائداعظم نے ہر ہندو اور مسلمان کے پاکستانی ہونے کا واضح الفاظ میں تذکرہ کیا ہے۔ دل سے پیہم خیال کہتا ہے کہ اسے پڑھ کر شاید ہمارے مخالفین کو اطمینان ہو جائے کہ دو قومی نظریے پر بات کرنا ملک سے غداری یا ناشکری کی علامت نہیں بلکہ پاکستان کے استحکام کو اور مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے نیز اس تقریر میں صاف بیان ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے برابر حقوق ہوں گے. یہ اقتباسات پڑھیے :

(ہم اپنے کام کا آغاز ایک ایسے عہد میں کررہے ہیں جہاں کسی امتیاز کی گنجائش نہیں۔ جہاں کسی ایک فرقے یا دوسرے کے درمیان تفرقے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جہاں ذات پات یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی اجازت نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں اور مساوی شہری ہیں۔۔۔۔

آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کیلئے آزاد ہیں، آپ کو پاکستان کی ریاست میں اپنی مسجدوں یا دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی پوری آزادی ہے۔ آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے ہو، اس کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ ایسا کسی مذہبی اصطلاح میں نہیں ہوگا کیونکہ مذہب ہر فرد کا نجی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی اصطلاح میں، ایک ریاست کے شہری کی حیثیت سے ۔۔۔)

اس تقریر کو ہر چیز پر فوقیت حاصل ہونی چاہیے جو کہ نہیں ہے! اس حقیقت کو کیوں چھپایا جاتا ہے کہ قائداعظم خود مذہب اور ریاست کو الگ رکھنے کے حامی تھے یعنی ان کا خواب تھا سیکولر پاکستان۔ غور سے پڑھیے کہ انہوں نے ’سٹیٹ آف پاکستان ‘ کہا ہے۔. ملک غلام نبی کی کتاب ’ داغوں کی بہار‘ میں اس کا ذکر موجود ہے کہ قائد ’پاکستان کا مطلب کیا‘ کے نعرے کے مخالف تھے ۔اس یاد دہانی کے بعد اب خود سوچئے کہ اس نظریے کو گلے سے لگائے رہنے کے نتائج کیا ہوں گے؟
اس وقت عالمی خلافت کی دو بڑی جہادی تنظیمیں اودھم مچا رہی ہیں جو اسی نظریے پر قائم ہیں۔ اگر آپ اتنے ہی شہادت کے شوقین ہیں تو آپ کو کس نے روکا ہے، جائیے ابوبکر البغدادی یا طالبان کے امیر المومنین کی بیعت کر لیجیے۔
اسلامیات ہو یا مطالعہ پاکستان، تاریخ کے صرف ان حصوں کو نصاب میں شامل کیا جاتا رہا ہے جس سے حکومت، دین کے دکانداروں یا اسٹیبلشمنٹ کے اغراض و مقاصد پورے ہوتے ہوں۔ مثال کے طور پر سنت رسول فقط میٹھا کھاتے ہوئے یا عقد ثانی کے موقع پر یاد آتی ہے خواتین کے حقوق پر دینی ٹھیکیدار شہنشاہ اسوہ حسنہ کو یکسر بھلا دیتے ہیں۔ سو، جو قوم اپنے مفاد کے لیے شاہِ امم کی تعلیمات پس پشت ڈال سکتی ہے اس کے لیے قائداعظم کے فرمودات کو بھلانا کونسی بڑی بات ہے۔
تماشا ختم ہوا تو کوئی نہ ہوگا یہاں
یہ لوگ دیکھنے والے ہیں، سوچتا کوئی ہے؟
لسانی فسادات اور دہشت گردی نے وطن عزیز میں ایک عجیب ہیجان زدہ معاشرے کو جنم دیا ہے جہاں دو دھماکوں کے درمیان کا وقفہ صرف اتنا ہی ہے جتنا اذان اور اقامت کے بیچ ہوتا ہے ۔
ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
ابھی تازہ کھدی قبروں کی مٹی بھی نہیں سوکھی
جناب شیخ حمزہ یوسف سے سوال کیا گیا کہ اسلامی معاشرے کی زبوں حالی کی وجوہات کیا ہیں تو ان کا مدلل جواب بھی جان لیجیے ۔ فرماتے ہیں :
یوں تو وجوہات بہت سی ہیں، پہلے بات کرتے ہیں ’تقلید‘ کی۔ تقلید کے لفظی معنی ہیں پیروی جو کہ بچوں کو گھر اور سکول دونوں جگہ سکھائی جاتی ہے ۔ اس بات کو آگسٹائن کی باہمی موافقت کی تھیوری کی روشنی میں دیکھئے ۔ اس کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاشرے کے حکمرانوں کا جو بھی انداز فکر ہو گا، اسکی جھلک آپ کو ہر ادارے کے اندر نظر آئے گی۔ اگر اس معاشرے پر جبری حکومت یا آمر کا راج ہے تو اس معاشرے کے اساتذہ اور والدین کا انداز، اور فکر و عمل بھی آمرانہ ہی ملے گا۔ ایک بات یہ دیکھی گئی کہ جب مسلمان مغربی ممالک میں تازہ تازہ بستے ہیں تو انہیں اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ بچوں سے یہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے کہ انہیں کھانے میں کیا چاہیے۔ کیا یہی کافی نہیں کہ بچوں کو کھانا مل رہا ہے۔ لیکن جب کسی بچے سے پوچھا جاتا ہے کہ اسے کھانے میں کیا پسند ہے تو آپ بچے کو احساس دلاتے ہیں کہ وہ اس گھر کا اہم فرد ہے اور اس کی شخصیت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی پسند و ناپسند پوچھ کر آپ نے اس کو اپنا فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے۔ بظاہر بات چھوٹی سی ہے مگر ایک مثبت سوچ رکھنے والے جمہوری معاشرے میں اسی سطح پر جمہوریت کی بنیاد اور داغ بیل ڈالی جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں اس بات کا فقدان پایا جاتا ہے کہ شہریوں کو ان کے حقوق نہیں دئیے جاتے۔ اکثریت تو حقوق سے ہی ناواقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ آمر کی حکومت کو ہٹا بھی دیں تب بھی آپ کے ادارے اسی جبری ، آمری فکر اور طرزعمل پر کار فرما رہتے ہیں۔ معاشرے میں اسی وجہ سے بدلاو نہیں آ پاتا۔ مختصراً آپ کا معاشرہ ایک آمر کے جانے کے بعد دوسرے آمر کی راہ تکنے لگتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ ذہنی تبدیلی لازمی ہے۔ مثبت ذہنی تبدیلی نصاب کی درستگی اور تاریخ کے حقائق بیان کرنے سے ہی آ سکتی ہے۔ حقائق کو متنازع قرار دینا حماقت ہے۔ پاکستان کا استحکام مقدس گائیوں کی قربانی مانگتا ہے۔
ردالفساد کی کامیابی ردالفراڈ تک ناممکن ہے!
نہ ہو اداس زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments