مولانا فضل الرحمن، سعد رضوی اور عمران خان کے لانگ مارچ


گزشتہ 14 سالوں میں تقریباً 9 بڑے لانگ مارچ ہوئے۔ ان میں شروعات طاہر القادری نے آصف زرداری کے دور حکومت میں کی۔ دوسرا لانگ مارچ دو سیاسی اور وقتی کزنوں نے عمران خان اور طاہر القادری نے نواز شریف حکومت کے خلاف کیا۔ یہ لانگ مارچ کم بلکہ کفن پوش انقلاب زیادہ تھا۔ پھر یہی کفن پہن کر دونوں جماعتوں کے کارکن پی ٹی وی پر حملہ آور بھی ہوئے اور ر سپریم کورٹ کی دیوار پر شلواریں لٹکی بھی پوری قوم نے دیکھی۔ پھر تیسرا لانگ مارچ یا احتجاج تحریک لبیک نے 2017 میں کیا۔

چوتھا پھر مولانا فضل الرحمن نے عمران خان نے دور حکومت کے پہلے سال میں کیا۔ یہ لانگ مارچ بظاہر عمران خان کے خلاف تھا لیکن حقیقت میں یہ لانگ مارچ اسرائیل کے خلاف زیادہ تھا۔ کیونکہ انہی دنوں اسرائیل کی ایک طیارہ اسلام ائر پورٹ پر اچانک لینڈ بھی کیا۔ پھر عمران خان کے ہی دور میں چوتھا لانگ مارچ تحریک لبیک نے آسیہ مسیح کی رہائی کے خلاف کیا۔ پانچواں لانگ مارچ پھر تحریک لبیک نے فرانس میں گستاخانہ خاکے کی اشاعت کے خلاف کیا گیا۔

اس مارچ سے قبل گو کہ حکومت نے سعد رضوی کو گرفتار کر لیا۔ جو کہ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا پھر اس گرفتاری کے اثرات پورے ملک میں دیکھے گئے۔ ملک بھر میں تحریک لبیک کے کارکنوں کے روڈ بند کر دیے دو دن ملک میں عجیب و غریب صورتحال رہی۔ آخر کار حکومت کو پھر رات کے اندھیرے میں سعد رضوی کو جیل سے خصوصی طیارے پر اسلام آباد لے جانا پڑا۔ پھر آرمی چیف جنرل باجوہ نے حکومت اور سعد رضوی کے درمیان معاہدہ کرایا۔ اس کے بعد چھٹا مارچ بلوچ قوم پرستوں نے ماما قدیر کی قیادت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کیا۔

پھر ساتواں مارچ بلاول بھٹو نے سندھ سے اسلام آباد کی جانب کیا۔ آٹھواں لانگ مارچ پی ڈی ایم نے کیا۔ جو مولانا فضل الرحمن نے کے پی سے شروع اور مریم نواز اور حمزہ شہباز نے لاہور سے شروع کیا۔ ان تمام لانگ مارچ نے ہر حکومت پر اپنے اپنے اثرات چھوڑے اور اپنے مطالبات منوائے۔ ان میں سب سے زیادہ کامیاب مولانا فضل الرحمن اور سعد رضوی کے لانگ مارچ رہے۔

مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کی بدولت اسرائیل کے حق میں مہم چلانے کا سلسلہ بند ہو گیا۔ جبکہ تحریک لبیک کے تیسرے لانگ مارچ کا سب سے زیادہ فائدہ سعد رضوی کو ہوا۔ اس لانگ مارچ کے دوران تحریک لبیک کو کالعدم قرار دے دیا، سعد رضوی کو گرفتار کر لیا اور ان کے سینکڑوں کارکنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا پھر ایک خفیہ معاہدے کے تحت سعد رضوی کو رہا کر دیا گیا، ان کی جماعت سے کالعدم کا لفظ ختم کر دیا اور کارکن بھی رہا کر دیے گئے۔ (اس معاہدے کا سب سے اہم نکات ایک تھا کہ تحریک لبیک آئندہ کسی مذہبی معاملے پر ملک کو بند نہیں کرے گی بلکہ اپنے مطالبات کو جائز طریقے سے پارلیمانی طریقے سے اٹھائے گی۔ تحریک لبیک سڑکوں کی بجائے پارلیمانی سیاست کرے گی) ۔ اس لانگ مارچ کے بعد سعد رضوی کی مقبولیت میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔ سعد رضوی ایک قد آور سیاسی شخصیت بن کر سامنے آیا۔ کیونکہ نوجوان طبقے نے سب سے زیادہ ان کا سیاست میں استقبال کیا اور خیرمقدم کیا۔ جبکہ نواں لانگ مارچ عمران خان نے پہلی بار تن تنہا کیا۔ اس بار ان کو اسٹبلشمنٹ، اے ٹی ایمز، طاہر القادری اور ق لیگ کی کوئی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ہاں کے پی حکومت کی حمایت ضرور حاصل تھی۔

عمران خان کا لانگ مارچ اور 1857 کی جنگ آزادی بالکل ایک ہی انداز میں شروع کیے گئے۔ اس لیے دونوں ناکام رہے۔ عمران خان کے لانگ مارچ کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ پولیس کا قبل از وقت کریک ڈاؤن بنا۔ پنجاب پولیس نے لانگ مارچ سے دو روز قبل پورے صوبے میں تحریک انصاف کے تمام ایم این اے، ایم پی اے، ٹکٹ ہولڈر اور بلدیاتی نمائندوں کے گھروں میں بلا تفریق چھاپے مارے جس کی وجہ سے پوری تحریک انصاف خوفزدہ ہو گی۔

سب سے ڈرامائی سین لاہور میں زبیر نیازی اور بجاش نیازی کے ساتھ ہوا، میرے ذرائع کے مطابق بجاش نیازی کے پاس ذاتی طور پر 32 کے قریب اسلحہ کے لائسنس ہیں۔ ان کا ٹرانسپورٹ کا کام ہے۔ اس لیے ہر گاڑی میں ایک گارڈ کے پاس اسلحہ ہوتا ہے۔ آپ سب نے تقریباً وہ تصویریں دیکھی ہوں گی جن میں جدید اسلحہ پڑا تھا۔ یہ تمام اسلحہ لائسنس یافتہ تھا جو ان کی گاڑیوں کی سیکیورٹی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

لاہور ہمیشہ سے احتجاجی تحریک کو لیڈ کرنے والا شہر رہا ہے لیکن یہاں سے صرف شفقت محمود، حماد اظہر اور یاسمین راشد ہی باہر نکلے میاں اسلم اقبال غائب رہے اور اعجاز چوہدری اور محمود الرشید نے مبینہ طور پر اخراجات اور پولیس کی مار کٹائی کے خوف سے ہی از خود پولیس کو گرفتاریاں دے دیں۔

پھر اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے جو کیا وہ بھی شرمناک تھا۔ سب سے بڑھ کر عمران خان نے ڈی چوک میں پہنچنے کی بجائے جناح ایونیو سے ہی لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ کارکن ڈی چوک میں انتظار کرتے رہ گئے۔ اب عمران خان سمیت پوری تحریک انصاف پر اس وقت مقدمات درج ہیں، سب باری باری عبوری ضمانتیں کرا رہے ہیں۔ عمران خان کے اس لانگ مارچ نے ان کی رہی سہی سیاسی ساکھ کو بھی ختم کر دیا ہے۔ عمران خان کا ایک بھرم بنا تھا کہ ان کے ساتھ ایک بڑا طبقہ ہے وہ بھی اب ختم ہو گیا ہے۔

عمران خان اب سسٹم میں واپسی کا راستہ تلاش کر رہے ہیں اور ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں رہا۔ تحریک انصاف اگلے الیکشن تک تقریباً مسلم لیگ (ق) بن جائے گی اور شاید عمران خان پارٹی اسد عمر کے حوالے کر کے خود سیاست سے ریٹائرڈ منٹ کا اعلان کر دیں۔ اگر اسد عمر نے انکار کر دیا تو بعید نہیں کہ عمران خان تنگ آ کر تحریک انصاف کو مسلم لیگ (ق) میں ہی ضم کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments