نیا قومی بجٹ: کوئی انقلابی اقدام نہیں ہوسکا


شہباز شریف کی حکومت نے پہلا قومی بجٹ پیش کردیا ہے۔ حسب توقع نئے بجٹ میں کوئی انقلابی اقدام دکھائی نہیں دیتا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی تقریر میں سابقہ حکومت کی غلطیوں کے ذکر اور اپنی صلاحیتوں کے دعوؤں کے علاوہ کوئی بات قابل ذکر نہیں تھی ۔ اسی طرح وزیر اعظم نے ’ٹھوس بجٹ‘ پیش کرنے پر ایک ٹوئٹ میں خود کو ہی جو مبارک باد پیش کی ہے، بجٹ تجاویز کا طائرانہ جائزہ لینے سے اس کی تصدیق ممکن نہیں ۔
وزیر اعظم اور وزیر خزانہ دونوں نے تسلیم کیا ہے کہ ملک شدید مالی مشکلات کا سامنا کررہا ہے جس کی وجہ سے قومی بجٹ میں کوئی کرشمہ دکھانا ممکن نہیں تھا۔ اس حقیقت کی تصویر بجٹ کے اعداد و شمار میں تو دیکھی جاسکتی ہے لیکن حکومتی عہدیداروں کی باتوں میں ان کا عکس دکھائی نہیں دیتا۔ بجٹ تجاویز، مفتاح اسماعیل کی تقریر اور شہباز شریف کے ٹوئٹ بیان سے ایک بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ دیوار سے لگی ہوئی حکومت کا پیش کیا ہؤا بجٹ ہے جسے موجودہ سیاسی و مالی بحران سے نکلنے کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ عمران خان نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد حکومت کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کیا ہے، قومی اسمبلی تو تحریک انصاف کے 131 ارکان کے استعفوں کے بعد کسی نہ کسی طور کام کررہی ہے لیکن پنجاب اسمبلی میں پیدا ہونے والا تعطل بدستور حکومت اور ملک کے لئے شدید پریشانی اور مشکلات کا سبب ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت وہاں کے سیاسی و سماجی حالات سے منسلک ہوتی ہے۔ ان حالات پر اس وقت حکومت وقت کا کنٹرول نہیں ہے۔
یہ بجٹ ایک ایسی حکومت نے پیش کیا ہے جو اتحادی ہونے کے باوجود درجن بھر کے لگ بھگ سیاسی پارٹیوں اور گروپوں کا اجتماع ہے جس میں انتشار پیدا ہوتے دیر نہیں لگتی۔ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں اگرچہ دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے سیاسی ضرورتوں سے ماورا ہوکر صرف وسیع تر قومی مفاد میں یہ بجٹ تیار کیا ہے اور حکومت ملک کی شکستہ معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا پختہ ارادہ رکھتی ہے۔ مفتاح اسماعیل کی اس بات کو اگر ان کی اپنی نیت کی حد تک درست بھی مان لیا جائے تو حکومت میں شامل سب اتحادی سیاسی پارٹیوں کے ارادوں کے بارے میں یہ کہنا ممکن نہیں ہے۔ موجودہ حکومت میں تین ایسی چھوٹی پارٹیاں بھی شامل ہیں جو تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کا بھی حصہ تھیں۔ یہ سچائی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ پارٹیاں کس کے اشارے پر سیاسی وفاداری کا تعین کرتی ہیں۔ جو کام ماضی میں کسی شرمندگی و پریشانی کے بغیر ہوتا رہا ہے ، ان عناصر کو مستقبل میں اسی کام کو سرانجام دینے میں کوئی قباحت نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی قسم کی شرمندگی کا احساس ہوگا۔ وسیع تر قومی مفاد ایک ایسی اصطلاح ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی مفاد پرست گروہ کی مدد کے لئے کارآمد ہوتی ہے۔
ایسی سیاسی صورت حال میں جس حکومت کو یہ بھی علم ہو کہ اسے ایک سال بعد بہر حال انتخابات کا سامنا کرنا ہے اور اس میں شامل بڑی پارٹیاں یہ بھی جانتی ہوں کہ انہیں انتخابات میں عوام پر مالی بوجھ ڈالنے کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی، ان کی بے یقینی اور کمزوری کو سمجھنا دشوار نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ شہباز حکومت کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ مزید ایک سال تک حکومت پر اپنی گرفت قائم بھی رکھ سکتی ہے کہ نہیں۔ معمولی سا دباؤ اور کسی غیر ارادی لغزش کے نتیجہ میں حکومت کسی بھی وقت قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہوسکتی ہے ۔ ایوان صدر کا مکین تو اس وقت پوری طرح تحریک انصاف کے مفادات کا رکھوالا ہے۔ شہباز شریف جوں ہی اکثریت کی حمایت سے محروم ہوئے، صدر مملکت اپنے تمام تر ’آئینی اختیارات‘ استعمال کرتے ہوئے ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم متعدد زیر تفتیش مقدمات میں ملزم قرار دیے جاچکے ہیں۔ کوئی عدالت کسی بھی وقت وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم نامہ جاری کرکے کوئی غیر معمولی صورت پیدا کرسکتی ہے۔
تحریک انصاف مسلسل موجودہ حکومت کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکالنے کے لئے سرگرم ہے۔ عمران خان دو ہفتے پہلے لانگ مارچ بیچ میں چھوڑ کر پشاور واپس جانے پر مجبور ضرور ہوگئے تھے جس کی وجوہات کے بارے میں صرف قیاس آرائی ہی کی جاسکتی ہے لیکن وہ اسی وقت سے دوبارہ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا عزم ظاہر کرتے رہے ہیں۔ پہلے حکومت کو چھے روز کی مہلت دی گئی تھی کہ اگر اسے عمران خان کا پیغام سمجھ نہ آیا ہو تو اب جان لے ورنہ تحریک انصاف کے سونامی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ 6 دن کے بعد یہ بوجھ سپریم کورٹ کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہاں سے حفاظتی پروانہ راہداری وصول ہوجائے تو نئے مارچ کا اعلان ہوگا۔ وہاں سے ’سفارتی‘ خاموشی کے بعد بجٹ کے بعد لانگ مارچ کا اعلان سامنے آنا تھا جو آخری خبریں آنے تک اب جولائی میں پنجاب کے ضمنی انتخابات تک ملتوی کردیا گیا ہے۔ ملکی سیاست دانوں کی یہ قلابازیاں دکھائی تو سب کو دیتی ہیں لیکن ان کے حامی اسے کسی درپردہ حکمت سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے اپنے لیڈر کی ذہانت و ذکاوت کی توصیف میں رطب اللساں رہتے ہیں۔
متحدہ قومی تحریک کی پارٹیاں بھی یہی کام کرتی رہیں۔ پہلے تو 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کو جعلی قرار دیا جاتا رہا تاہم جوں ہی عدم اعتماد لانے اور حکومت سنبھالنے کا موقع ملا تو وہی جعلی اسمبلیاں آئینی حق استعمال کرنے کا وسیلہ بن گئیں۔ اب عمران خان کا سیاسی طرز عمل بھی ماضی قریب میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے رویہ ہی کی شبیہ ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں غیر ملکی سازش کے ذریعے ایک جائز حکومت گرانے کا الزام لگاتے ہوئے استعفے دینے کا اعلان کیا لیکن اب تک تحریک انصاف کے سب ارکان اسمبلی بڑی ڈھٹائی سے تنخواہیں اور مراعات تو وصول کررہے ہیں لیکن نہ تو استعفوں کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی عوامی نمائیندے کے طور پر اپنا سیاسی، آئینی اور اخلاقی فرض ادا کرتے ہیں۔ یہی صورت حال پنجاب اسمبلی میں بھی دکھائی دیتی ہے جہاں خود اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنے والے اسپیکر نے کسی بھی طرح وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش میں ملک کی دو تہائی آبادی والے صوبے کی اسمبلی کو یرغمال بنایا ہؤا ہے۔ اب ضمنی انتخابات پر نگاہیں گاڑی گئی ہیں کہ اس میں کسی بھی طرح سیٹیں جیت کر حمزہ شہباز کو نیچا دکھایا جائے۔
اس سیاسی صورت حال میں کسی ملک کی حکومت سے یہ توقع عبث ہوگی کہ وہ کوئی ایسا ذمہ دارانہ بجٹ پیش کرسکتی ہے جس سے کسی اہم ادارے یا عوام کی اکثریت کو ناراض کرنے کا سامان بہم ہو۔ موجودہ سیاسی بے یقینی عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ حکومت پاکستان کی بات چیت اور کسی حتمی معاہدے کی راہ میں بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس سچائی کو خواہ کسی بھی پہلو سے دیکھا جائے لیکن یہ طے ہے کہ آئی ایم ایف سے مالی تعاون کے معاہدے کی توثیق کے بغیر قومی اخراجات پورا کرنا کار محال ہوگا۔ ملک کے لئے بیرونی قرضو ں کی ادائیگی کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر کو کسی قابل قبول حد تک مستحکم رکھنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ متعدد معاشی ماہرین ایسی ہی صورت حال کے خوف میں سری لنکا میں پیدا ہونے والے حالات کا حوالہ دیتے ہیں اور پاکستان میں ویسی ہی انہونی کا خوف پیدا کیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے ایک طرف ایسا بجٹ تیار کرنا تھا جس میں ایسے اقدامات شامل ہوں جو آئی ایم ایف کو مطمئن کرسکیں تو دوسری طرف عسکری قیادت کو خوش کرنے کا اہتمام کرنا بھی اہم تھا تاکہ کمزور حکومت کو کسی ناگہانی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے سامنے حکومت کو یہ ثابت کرنا ہے کہ اس کے اقدامات سے ملکی معیشت اب بہتری کی طرف گامزن ہوسکتی ہے تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ کم از کم اس کے فراہم کردہ وسائل کی مدت معاہدہ کے دوران پاکستان ڈیفالٹر نہیں ہوگا تاکہ دیا گیا قرضہ وصول ہوجائے ۔ بجٹ میں 7004 ارب روپے محاصل وصول کرنے کا عندیہ اور ترقیاتی مصارف کو 800 ارب روپے تک محدود کرنے کا فیصلہ اسی مقصد سے کیا گیا ہے۔ فوج کو خوش کرنے کے لئے دفاعی بجٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد اضافہ ہؤاہے۔ اس وقت ملک کے دفاعی اخراجات کل قومی مصارف کا ساڑھے سترہ فیصد ہیں۔
گزشتہ روز جاری ہونے والے اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان 44000 ارب روپے کا مقروض ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق اس میں سے بیس ہزار ارب روپے کے قرضے تحریک انصاف کی ساڑھے تین سالہ حکومت کے دوران لئے گئے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ملک کو ہر سال قرضوں اور سود کی ادائیگی پر 3950 ارب روپے صرف کرنا ہوں گے۔ ملکی درآمدات مسلسل 75 ارب ڈالر سالانہ ہیں اور برآمدات کا ہدف 31 ارب ڈالر ہے۔ بیرون ملک ترسیلات سے 32 ارب ڈالر ملنے کے باوجود سالانہ تجارتی خسارہ پندہ ارب ڈالر کے لگ بھگ رہتا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ جوں ہی برآمدات میں اضافہ کے لئے پیداواری صلاحیت بڑھانے کےاقدامات کئے جاتے ہیں تو درآمدی بل اور تجارتی خسارہ بڑھنے لگتا ہے۔ یہ کمی صرف قومی آمدنی میں اضافہ کے ذریعے ہی پوری ہوسکتی ہے تاہم ہر حکومت کی طرح موجودہ حکومت کو بھی اس خطرناک چیلنج کا سامنا ہے کہ صاحب حیثیت لوگوں کو کیوں کر اپنے حصے کا ٹیکس دینے پر آمادہ کیا جائے۔
بجٹ میں مہنگائی کا تخمینہ ساڑھے گیارہ فیصد لگایا گیا ہے ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ سے اس بوجھ کو بانٹنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن نجی شعبوں میں کام کرنے والے لوگوں کی اکثریت بدستور افراط زر کی وجہ سے سکڑتی ہوئی پرائیویٹ معیشت کے چیلنج کا سامنا کرے گی۔ سیاسی مشکلات اور مالی اندیشوں میں گھری حکومت نے ایک ایسا بجٹ پیش کیا ہے جس پر اپوزیشن پر جوش تنقید کرسکتی ہے اور حکومت حالات کا حوالہ دیتے ہوئے اسے اپنی کامیاب حکمت عملی کا نمونہ بتا سکتی ہے۔ تاہم آنے والے چند ماہ میں پتہ چلے گا کہ کیا حکومت اپنا کوئی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اس کا پہلا امتحان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنا ہوگا تاکہ ملک کو فوری معاشی بحران سے نکالا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments