امیروں کا بجٹ، غریبوں کی موت


دنیا میں جب سے اکیلا سرمایہ داری سسٹم بچا ہے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی چاہے کسی کی حکومت ہو اصل حکومت سرمایہ دارانہ نظام کی ہے جس میں یہ لوگ سرمایہ داروں کو مراعات دے رہے ہوتے ہیں اور غریبوں کو اور بھی زیادہ غریب کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اس سب میں ان کی معاونت آئی ایم ایف کرتی ہے غریبوں کے منہ سے آخری نوالہ کیسے چھیننا ہے یہ بھی آپ کو وہی بتاتے ہیں یا اگر وہ نہیں بتاتے تو بہرحال آپ کی حکومتیں ہمیں یہی بتاتی ہیں کہ مہنگائی آئی ایم ایف کا تحفہ ہے۔

یقین مانیں بڑی آسانی سے آپ بڑی گاڑیوں میں گھومنے والوں اور فارم ہاؤسز میں رہنے والوں پر ویلتھ ٹیکس لگا کر بجلی اور فیول میں سبسڈی دے سکتے ہیں پر اس پر بات کر کے آپ قومی مجرم قرار پائیں گے کیونکہ جو حکومت چلا رہے ہیں وہی اصل میں ان بڑے بڑے فارم ہاؤسز کے مالک ہیں۔ آپ چاہیں تو بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیز پر ٹیکس لگا کر نا صرف ٹیکس نیٹ بڑھا سکتے ہیں بلکہ فائل کلچر کی بیخ کنی کر کے کالے دھن کو سفید ہونے سے روک سکتے ہیں۔

ان تمام کاموں کو کرنے کے لیے آپ کو ایک پل صراط سے گزرنا پڑے گا کیونکہ اصل حکمران کوئی جماعت نہیں یہی مراعات یافتہ طبقہ ہے جو کبھی نہیں چاہے گا کہ ان کی مراعات کم ہوں۔ وہ ہر قربانی عوام سے لینا چاہتے ہیں اور وہ قربانی عوام سے لے بھی رہے ہیں پر کتنے دن تک؟ وہ دن دور نہیں جب عوام مزید قربانی دینے کے قابل نہیں رہے گی۔ تب کیا ہو گا؟

’آج ایک بار پھر آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ پیش کیا جائے گا جس میں غریبوں پر بوجھ ڈالا جائے گا جبکہ امرا اور اشرافیہ کو مزید امیر سے امیر ترین ہونے کا موقع دیا جائے گا‘ پاکستان میں خوشحالی صرف ایک ہی صورت میں آ سکتی ہے کہ ہم ”چائنیز معاشی فارمولے“ کو کاپی پیسٹ کر لیں کرپشن پہ سزائے موت اور نیگلیجنسی پر سخت سے سخت سزائیں اور صحیح آدمی کو صحیح جگہ پر کام میں لگایا جائے۔ دوسرے لفظوں میں بیوروکریسی نہیں بلکہ پروفیشنلز کو کام پہ لگایا جائے۔

کیونکہ پاکستان کے اسی فیصد مسائل پاکستان کی نکمی بیوروکریسی کی وجہ سے ہیں اور یہ بابو کیونکہ پروفیشنل نہیں ہوتے سو وہ صحیح اور دلیر فیصلے لینے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ میں شرح صدر سے کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ نظام میں پاکستان کسی طور پر ترقی نہیں کر سکتا اس کی ترقی کے لیے اسے فرسودہ اور زنگ آلود نظام سے نکال کر وقت کے ساتھ ہم عصر کرنا ہو گا اور اس میں عوام کی فلاح کے ساتھ خود اشرافیہ کی بقا بھی ہے اگر یہ سوچیں تو ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments