چائے کی پیالی میں طوفان


عمران خان کا لانگ مارچ چائے کی پیالی میں طوفان ہی ثابت ہوا عمران خان 25 مئی 2022 ء کو 6 روز بعد پھر اسلام آباد واپس آنے کا ایسا الٹی میٹم دے کر خیبر پختونخوا کیا گئے کہ لانگ مارچ کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کر دیا وہ پشاور سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ہیلی کاپٹر میں طمطراق سے بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ پر پہنچے اور خاموشی سے قیام پذیر ہیں انہوں نے بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ پر پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس کی صدارت بھی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد کچھ اعلانات بھی کیے گئے لیکن تاحال بنی گالہ کے مکین نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ایسا دکھائی دیتا ہے انہیں سر دست خاموش رہنے کا پیغام موصول ہوا ہے اور انہیں اس بات کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے کہ رانا ثنا اللہ ( جو ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں ) کی جانب سے گرفتار کر لینے کے اعلانات کے باوجود ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جائے گی وفاقی حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ عمران خان بنی گالہ میں پرسکون انداز میں ”خاموشی“ سے بیٹھے رہیں اسے ان کی جانب سے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے پر کوئی اعتراض نہیں

عمران خان نے بنی گالہ میں ”مصلحتاً“ خاموشی اختیار کر رکھی ہے انہوں نے اپنی خاموشی کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے منسلک کر دیا ہے بنی گالہ میں پی ٹی آئی کے انٹرا انتخابات اتنی خاموشی سے ہوئے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کوئی ”ہلہ گلہ“ اور نہ ہی بائیکاٹ بس بنی گالہ سے نئے عہدیداروں کے انتخاب کا اعلان کر دیا گیا عمران خان نے لانگ مارچ میں پنجاب پی ٹی آئی کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے جس کے بعد انہوں نے پنجاب کی حد تک پارٹی کے کئی عہدیداروں کو فارغ کر دیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے یہ سب کاغذی کارروائی الیکشن کمیشن کو رپورٹ بھجوانے کے لئے کی گئی ہے عمران خان ایک بار پھر بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں بنی گالہ میں مبینہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی نیشنل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ ”چند دن میں احتجاج کی کال دینے والا ہوں بس سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے جس پر مریم نواز  نے عمران خان پر پھبتی کسی ہے کہ“ رانا ثنا اللہ عمران خان کی کال کا انتظار کر رہے ہیں ”گویا عمران خان کو سپریم کورٹ نے تحفظ فراہم نہ کیا تو وہ احتجاج کی کال نہ دیں گے

سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے آصف علی زرداری سے ان کی پہلی ملاقات تھی جس میں آصف علی زرداری نے پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے تمام امیدوار دستبردار کرنے کا عندیہ دیا ہے اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز  نے آصف علی زرداری کی تمام فرمائشیں قبول کر لی ہیں ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب نے پیپلز پارٹی کو 5 وزارتیں، 2 مشیر اور 2 معاون خصوصی دینے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے اب پنجاب کی خالی ہونے والی 20 نشستوں پر تمام امیدوار مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں گے پیپلز پارٹی کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان آئندہ 10 سال تک اکٹھے الیکشن لڑنے کا معاہدہ ہو گیا ہے پیپلز پارٹی کو سندھ اور مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں فری ہینڈ دیا جائے گا

جوں جوں وقت گزر رہا ہے عمران خان کے ساتھی اہم انکشافات کر رہے ہیں سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اکثر و بیشتر سیاسی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں انہوں نے تازہ ترین انکشاف کیا ہے کہ مجھے انٹیلی جنس بیورو نے 4 ماہ قبل ہی بتا دیا تھا ”ہم جا رہے ہیں“ جب میں نے عمران خان کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ ”مجھے اس بات کا پہلے سے ہی پتا ہے“ کچھ روز قبل شیخ رشید احمد نے اس سے بالکل مختلف بات کہی تھی کہ عمران خان کو آخری وقت تک یقین تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں آئے گی شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ ”کچھ نہ کچھ تو تھا کہ عمران خان نے اپنے جانے سے قبل پٹرول اور بجلی کی قیمتیں 10، 10 روپے کم کر دی تھیں۔

گویا شیخ رشید احمد نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عمران خان کو اپنی حکومت کے کا خاتمہ کا علم تھا لہذا انہوں نے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کر کے آنے والی حکومت کے لئے“ بارودی سرنگیں ”بچھا دی تھیں یہی وجہ ہے آج شہباز شریف کی حکومت کو دو ماہ ہونے والے ہیں اس کا ہنی مون پیریڈ“ بارودی سرنگیں ”صاف کرنے میں گزر گیا ہے

پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمہ کے سب سے زیادہ منفی اثرات پاکستان مسلم لیگ (ق) پر مرتب ہوئے ہیں ستمبر 1981 ء میں چوہدری ظہور الہی کی وفات کے بعد چوہدری شجاعت حسین نے ”چوہدری برادران“ کو متحد رکھا ہے لیکن پہلی بار چوہدری برادران سیاسی طور پر منقسم نظر آرہے ہیں ممکن ہے چوہدری برادران میں اختلافات کی خبر مبالغہ آرائی پر مبنی ہو چھوٹے موٹے اختلافات سیاسی خاندانوں میں چلتے رہتے ہیں لیکن جس طرح چوہدری برادران میں اختلافات کی خبریں آ رہی ہیں لگتا ہے چوہدری برادران کو تقسیم کرنے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں چوہدری شجاعت حسین کا جھکاؤ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے یہی وجہ ہے انہوں نے اپنے صاحبزادے چوہدری سالک حسین باگ ڈور میاں نواز شریف کے ہاتھ دے دی ہے جب کہ چوہدری پرویز الہی عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں چوہدری پرویز الہی ایک جہاندیدہ سیاست دان ہیں غالباً پہلی بار انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک میں ایسا فیصلہ کیا جو ان کے لئے سیاسی نقصان کا باعث بنا اب چوہدری شجاعت حسین کے بھائی چوہدری وجاہت حسین نے بھی ’‘ بغاوت ”کر دی ہے چوہدری برادران کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے چوہدری برادران کے درمیان میل ملاقات میں کوئی ایسی خلیج نظر نہیں آتی جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ ان کے سیاسی راستے جدا ہو گئے ہیں تاہم چوہدری وجاہت حسین کے صاحبزادے چوہدری حسین الہی کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کو چھوڑنے کے اعلان سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے چوہدری برادران کے درمیان“ سب اچھا نہیں ہے ”چوہدری پرویز الہی اور چوہدری وجاہت حسین نے گجرات کی دونوں نشستوں سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے انہیں گجرات میں پی ٹی آئی سوٹ کرتی ہے جب کہ چوہدری شجاعت حسین نے چوہدری سالک حسین کے لئے تلہ گنگ کی نشست کا انتخاب کر لیا ہے اور وہ اس نشست سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں گے چوہدری سالک حسین ذہنی طور مسلم لیگ (ن) کے بہت قریب ہیں اب چوہدری حسین الہی سیاسی طور پر اپنے تایا زاد بھائی کی بجائے ماموں زاد بھائی چوہدری مونس الہی کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرنا چاہتے ہیں ان کا مسلم لیگ (ق) کے ساتھ سیاسی سفر ختم کرنا غیر معمولی فیصلہ ہے چوہدری برادران میں تقسیم کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین سے تفصیلی ملاقات کی ہے یہ ملاقات سیاسی لحاظ سے انتہائی اہم ہے آنے والے دنوں میں چوہدری شجاعت حسین کی شریف خاندان سے قربت میں اضافہ ہو سکتا ہے جو بالآخر مسلم لیگ (ق) کی مسلم لیگ (ن) میں ادغام کا باعث بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments