انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں


پاکستان میں رواں سال کے آغاز سے ہی سیاسی پارہ کافی گرم رہا ہے جس میں اسمبلیاں توڑنے تک کی نوبت آن پہنچی لیکن یہاں داد دینی ہوگی سپریم کورٹ آف پاکستان کو جس نے بغیر کسی تعطل کے دو دنوں کے اندر نہ صرف اسمبلیوں کو بحال کیا بلکہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے احکامات بھی جاری کر دیے۔ بس پھر وہی ہوا جس کا تصور صاب نظر لوگ سیاسی بے چینی کے اوائل سے ہی کر رہے تھے یعنی کہ عمران خان کو ایوان وزیراعظم سے رخصت ہو کر بنی گالہ جانا ہی پڑا۔ اس ساری روداد کا مرکزی تھیم ”مہنگائی اور تباہ حال معیشت“ تھا جس کو بنیاد بنا کر اپوزیشن جماعتوں نے خوب سکرپٹ لکھا اور اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے۔

10 اپریل 2022 کو تحریک عدم اعتماد کے بعد گنگا تو بہنے لگی جس میں متحدہ اپوزیشن اتحاد ( پی ڈی ایم ) کی 14 جماعتوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق خوب ہاتھ دھوئے اور مل کر قومی حکومت بنانے میں سرخرو ہوئے، جس کے تحت شہباز شریف ملک کے تیسویں وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ اس ساری سیاسی اور آئینی زور آزمائی کے بعد کہانی کے کردار تو بدل گئے لیکن منظرنامہ تبدیل نہ ہو سکا۔ کیونکہ پاکستان کو 2018 کے بعد سے جس طرح بڑھتی مہنگائی، روپے کی ڈالر کے مقابلے میں گرتی قدر، پٹرولیم مصنوعات کے بڑھتے نرخ، بڑھتے قرضے، گرتی معیشت جیسے مسائل کا سامنا تھا انہیں اچانک سے پر لگ گیا اور وہ پہلے سے دو گنا زیادہ برق رفتاری کے ساتھ بڑھنے لگے۔

دیکھتے ہی دیکھتے دو ماہ میں پٹرول، بجلی، گیس، گھی، آٹا، چینی، ٹرانسپورٹ کے کرائے نیز سب کی قیمتیں اور غریب عوام کی چیخیں آسمان کو چھونے لگیں۔ گویا جیسے عمران خان ایوان وزیراعظم سے کوئی جادو کی چھڑی اپنے ساتھ لے گئے ہوں اور بنی گالہ میں بیٹھ کر گھما رہے ہوں تاکہ مہنگائی قابو میں نہ آ سکے اور متحد حکومت کی ساکھ متاثر ہو سکے۔ یہ بات تو طے ہے کہ حکومت کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ انہوں نے مہنگائی کارڈ کھیل کر خود اپنا پاؤں کلہاڑی پر دے مارا ہے اگر اب وہ موجودہ صورت حال پر قابو نہ پا سکے تو انہیں اقتدار کی بڑی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

حکومتی جماعتیں بار بار یہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے وہ عوام کو اس مہنگائی کے منجدھار سے ہر حال میں باہر ضرور نکالیں گے اور معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کب اور کیسے؟ کیونکہ ہماری غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کو آئی ایم ایف کی شرائط، ایف اے ٹی ایف کی ڈیمانڈز، اور حکومت کی لانگ ٹرم پالیسیوں جن کا تذکرہ وزیر مملکت پٹرولیم مصدق ملک 19 جون کو شہزاد اقبال کے پروگرام میں کر رہے تھے ان سب سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

انہیں صرف ریلیف چاہیے ہے جو کہ مستقبل قریب میں دور دور تک ملتا نظر نہیں آ رہا۔ شہباز شریف جو سپیڈ کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ اور ان کی کابینہ مسلسل جدوجہد کرتی دکھائی دے رہی ہے لیکن اتنی تنگ و دو کے باوجود بگڑتے حالات سے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ جتنا ہاتھ پاؤں مارتے جا رہے ہیں اتنا ہی بارودی سرنگوں کی زد میں آتے جا رہے ہیں۔ وہی بارودی سرنگیں جن کا تذکرہ شیخ رشید نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا سابقہ حکومت کے کرداروں کے اس قسم کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حالات بد سے بدتر ہونے والے ہیں جو کہ بظاہر نظر بھی آ رہے ہیں۔

اہل علم تو یہ بات جانتے ہیں کہ ”وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا“ یعنی کہ موجودہ حالات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک دو ماہ کی کارکردگی کے باعث نہیں ہو رہا بلکہ اس کی بنیاد ساڑھے تین برسوں سے رکھی جا رہی تھی۔ لیکن یہ بات عوام کی سمجھ سے کافی پرے ہے لہٰذا ان میں اپنی ڈوبتی ساکھ کو بچانے کے لیے حالات میں سدھار لانا ضروری ہے نہیں تو اتحادی حکومتی جماعتوں کی عزت ایسے ڈوبے گی جیسے صبح صادق کے وقت روشنی کی پہلی کرنوں کے ساتھ ساری رات چمکنے والے تارے یک دم سے غائب ہو جاتے ہیں۔

آنے والا وقت بہت سے لوگوں پر بہت سی باتیں باور کرا جائے گا امید کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکمران اس صورتحال پر قابو پا لیں گے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر دیکھنا یہ مقصود ہے کہ جن جماعتوں نے حکومت میں اپنا حق سمجھ کر حصہ لیا وہ ناکامیاں کس حد تک اپنے حصے میں ڈالیں گی کیوں کہ پاکستانی معیشت اور عوام کی بدحالی کی تاریک رات جو 18 اگست 2018 سے لے کر 10 اپریل 2022 تک پھیلی ہوئی تھی وہ نیا سورج اگنے کے بعد بھی طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے اور ارباب شعور یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ ”انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments