بھگوان


ایک دن بھگوان نے اپنے کارندے جمع کیے اور کہا کہ ہر مردے کو انصاف کی دولت سے مالامال کرنے کے لیے مجھے ایک ترکیب سوجھی ہے۔ کارندوں نے کہا جی حکم۔ بھگوان نے کہا میں نے سوچا ہے کہ ہندوستان آبادی کے لحاظ سے ایک بہت بڑا ملک ہے اگر ایک ہی دن یوم محشر لگایا گیا تو انصاف کے تقاضوں میں خلل آ سکتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ جب سے میں بنا ہوں تب سے اب تک مرنے والوں کے سورگ کا فیصلہ کر دیا جائے اور آئندہ کچھ مخصوص وقت کے بعد یہ فیصلہ کر لیا کریں کہ ”کون سورگ والا اور کون آگ والا ہے“ ۔

کار خاص: جناب آپ ہندی جنتری کے مطابق کوئی پانچ ہزار سال پہلے وجود میں آئے تھے، آپ کا فیصلہ بہت اچھا ہے، کیوں کہ تب سے اب تک کروڑوں کے حساب سے ہندو مر چکے ہیں، یہ ایک بہت بڑا کام ہے اس کے لیے بڑا وقت چاہیے ہو گا۔

بھگوان اچھا، تم ایسے کرو، سب جاؤ اور اب تک جتنے بھی ہندو اپنے آواگون کے چکر پورے کر چکے ہیں ان سب کی راکھ دریاؤں، ندی، نالوں اور ورثاء کی چھتیوں سے اکٹھی کر کے لے آؤ، ان کو دوبارہ گوشت پہنا کر اور اچھی طرح نہلا دھلا کر میرے سامنے پیش کرو۔

”جو حکم میرے آقا“ ۔ اگر تم آدھے لگ جاؤ تو کب تک یہ کام کر لو گے ;جی دو ہفتے میں۔ یہ دو ہفتے کیا ہوتے ہیں ; ہند والوں نے وقت کی تقسیم کا طریقہ بنایا ہوا ہے، اس میں سال دن، ہفتے مہینے، اور پہر ہوتے ہیں۔ مگر میں یہ سب نام پہلی دفعہ سن رہا ہوں۔ آپ کو کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی اس لیے ہم نے کبھی آپ کو یہ نہیں بتایا۔ اب سے جب بھی زمین والے کچھ نیا کریں تو مجھے بتایا کرو۔ جی جو حکم ہمارے آقا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا اگر سارے لگ جاؤ تو کتنے دنوں میں مردوں کو اکٹھا کر لو گے ; کار خاص، سارے نہیں جا سکتے، آپ کا روٹی، ٹکر، چائے، پانی اور سب سے اہم بات آپ کی سکیورٹی کا خیال کون رکھے گا ; اوو۔ میں تو بھول ہی گیا تھا کہ میں اب زمین پر ہوں، ٹھیک ہے، آدھے جاؤ اور کام مکمل کرو۔

کارندوں نے دو ہفتوں سے بھی پہلے سب مردوں کی باقیات کو اکٹھا کیا اور ہندوستان کے سب سے بڑے صحرا تھر میں بھگوان کے سامنے پیش کرنے کے لیے جمع کر دیا۔ کارندوں نے بھگوان کو اطلاع دی کہ سب لوگ امتحان کے لیے تھر میں جمع ہیں، آپ آ جائیں۔ بھگوان تھر کیا ہے ; ہندوستان میں سب سے بڑا صحرا ہے، تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے وہاں انتظام کیا ہے۔

وہ کدھر ہے ;ہم آپ کو لیے چلتے ہیں، اور بھگوان صاحب ایک بات کا خیال رکھنا، وہاں لوگوں کے سامنے کدھر کدھر نہیں کہنا، پنڈتوں نے لوگوں کو بتایا ہوا ہے کہ آپ سب کچھ جانتے ہیں، بلکہ انسان جو کچھ جانتے ہیں وہ آپ نے ہی ان کو بتایا ہوا ہے، اس لیے سوالات سے پرہیز کرنا، ورنہ بھگوانی لوگوں کی نظروں میں مشکوک ہو جائے گی۔ بھگوان، چلو وہاں نہ سہی یہاں تو سوال کر سکتا ہوں ; جی آقا۔ آپ یہاں جتنے دل چاہے سوال کریں ہم جواب دیں گے، گزارش صرف اتنی ہے کہ بندوں کے سامنے اپنے بھگوان پنے کا بھرم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ سوال نہ کریں۔

اچھا بابا اچھا نہیں کروں گا، اب بھاشن دینا بند کرو، ۔ ”جی جو حکم۔ میرے آقا“ ۔ بتاؤ تھر کہاں ہے ; ہندوستان کا سب سے بڑا صحرا ہے، اس کا کچھ حصہ پاکستان میں بھی ہے، ہم آپ کو وہاں لے چلیں گے۔ پاکستان کے ساتھ ; پہلے بتاتے تو ساتھ ان کے مردوں کے بھی فیصلے کر دیتے۔ کار خاص، نہیں وہ آپ سے فیصلے نہیں کرواتے، نہ وہ آپ کو مانتے ہیں، ان کے فیصلے کرنے والا ہے۔ ”خدا“ ۔ یہ کون ہے ; میں یہ نام پہلی بار سن رہا ہوں ; جیسے ہندووں کا پروردگار بھگوان یعنی آپ ہیں اسی طرح مسلمانوں کے پروردگار کا نام خدا ہے۔

صحرائے تھر والوں کو منادی کر کے بتا دیا جاتا ہے کہ تاحکم ثانی اپنی بکریاں اونٹ نہیں کھولنے، خود بھی باہر نہیں نکلنا، بھگوان صحرا میں مردوں کا حساب لینے لگے ہیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی صحرا واسی کارندوں کی غلطی سے حساب والوں میں دھر لیا جائے۔ صحرا انسانوں سے کھچا کھچ بھر جاتا ہے، کارندوں نے صحرا میں پاکستان کے بارڈر کے ساتھ مشرق کی طرف منہ کر کے کوئی پچاس فٹ اونچائی والی ایک کرسی لگا دی، بھگوان کارندوں کے جھرمٹ میں وہاں پہنچتا ہے، آتے ہوئے بھگوان نے دیکھا کہ بے شمار انسانوں کے جمع ہونے کی وجہ سے اڑنے والی گرد تاحد نظر پھیلی ہوئی تھی، یہاں تک کہ بھگوان نے بھی سانس لینے میں دقت محسوس کی، بھگوان نے سوچا، اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یہاں اتنی دھول اور گرمی ہونی ہے تو میں شام کو ضرور ہلکی بارش کر دیتا۔

کارندوں نے بڑے احترام سے بھگوان کو اٹھا کر کرسی پر بٹھا دیا، کارندوں نے کرسی پر بٹھاتے ہوئے بھگوان کے کان میں کہا ”یہاں گرمی بہت ہے، حساب ذرا پھرتی سے کرنا“ ۔ بیٹھتے ہی بھگوان نے اعلان کیا ”جنہوں نے میرے بتائے ہوئے پانچ اصولوں کی پیروی کی وہ میرے دائیں جانب لائنوں میں کھڑے ہو جائیں، جنہوں نے پانچ اصولوں کی پابندی نہیں کی، وہ میری کرسی کی بائیں جانب لائنوں میں کھڑے ہو جائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرسی کے دونوں طرف لوگ لائنوں میں لگ گئے، ایک تیسرا گروپ ازخود بن گیا، یہ دائیں قطار میں نہ بائیں میں گئے۔ رش کم کرنے کے لیے بھگوان نے کارندے سے کہا دائیں طرف والوں کو ساتھ لو اور سورگ میں چھوڑ آؤ، دوسرے کارندے کو حکم دیا،“ میری بائیں طرف والوں نے سچ بولا ہے، سچ بولنا میری ہدایات میں سے ہے، ان سب کو بھی سورگ میں چھوڑ آؤ۔ کارندہ لے کر چل پڑا۔

بھگوان درمیان ( یہ صرف عورتیں تھیں ) میں کھڑے رہنے والوں سے ”تمہارا کیا مسئلہ ہے“ ; انصاف نہیں ہوا، جن کو آپ نے سورگ میں بھیجا ہے ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے ہمیں ستی کی رسم پوری کرنے کے لیے زبردستی آگ میں پھینکا، ان کو دوزخ میں پھینکو تاکہ ان کو معلوم ہو کہ انہوں نے ہمارے ساتھ کتنا بڑا ظلم کیا۔ بھگوان ”یہ ستی کیا ہوتا ہے“ ; گروپ لیڈر، آپ کی کتابوں میں لکھا ہے، آپ ہم سے پوچھتے ہیں ; کار خاص ”آقا خاوند کے مرنے کے بعد اس کی پتنی کو خاوند کے ساتھ آگ میں ڈال کر جلانے کی رسم کو ستی کہتے ہیں“ ۔

بھگوان ”زندہ کو “ ; جی۔ عورتوں پر ایسا ظلم سن کر بھگوان پر غم کا دورہ پڑ گیا، اس کے سارے بدن پر کپکپی طاری ہو گئی اور تقریباً بے ہوش ہو گیا۔ کچھ دیر بعد بھگوان ہوش میں آیا، آنکھوں کو ملتے ہوئے اپنے آپ کو سنبھالا ”میں کہاں ہوں“ ; کار خاص ”جناب آپ صحرائے تھر میں ہیں اور سورگ کے فیصلے فرما رہے ہیں، دو گروپوں کا حساب ہو گیا ہے، اب صرف ستی شدہ عورتوں کا فیصلہ باقی ہے، یہ کہتی ہیں ہمیں ستی کی رسم پوری کرنے کے لیے مردوں نے مجبور کیا اور آپ نے ان کو بخش دیا ہے۔

بھگوان، کبھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہے، کبھی آنکھیں ملتا ہے، کبھی انگلی کی مدد سے کانوں میں سے میل نکالنے لگ جاتا ہے اور ساتھ، اوں۔ آں۔ وہ یہ ہے کہ۔ ۔ ۔ کار خاص سمجھ جاتا ہے کہ بھگوان سے جواب نہیں بن پا رہا اور مدد کے لیے مداخلت کرتا ہے۔ کار خاص“ آپ میری بات سنیں یہ مسئلہ صرف ہندو عورتوں کا نہیں، یہ مسئلہ ہندوستان کی سب عورتوں کا ہے ”۔ گروپ لیڈر مداخلت کرتے ہوئے“ نہیں مسلمان عورتوں کو ستی نہیں ہونا پڑتا ”۔

آپ بعد میں بولنا پہلے مجھے بات مکمل کرنے دیں، ہاں میں کہہ رہا تھا ہندوستان کی تمام عورتوں کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں ستی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، آپ بتائیں ; عورت کو جائیداد سے حصہ نہ دینا، اس کے لیے تعلیم کا دروازہ بند رکھنا، نوکریوں میں حصہ نہ دینا، گھر سے باہر نکلنے والیوں کو بے عزت کرنا، چلنے پھرنے سونے جاگنے کے لیے الگ الگ ہدایات نامے جاری کرنا، عورت کی پیدائش کو اولاد نہیں رحمت قرار دینا، پتنی مرے تو مرد کے لیے دعا کرنا کہ بھگوان اس کو بہتر متبادل عطا فرمائے اور مرد مرے تو اس کی پتنی کے لیے ایسی کوئی دعا نہیں نکلتی، یہ سب کچھ رسم ستی ہی تو ہے۔

گروپ لیڈر، آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ; میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ہند کے سب مذاہب کا مسئلہ ہے، اکیلا بھگوان اس کو حل نہیں کر سکتا۔ عورتیں مداخلت کرتے ہوئے“ تو پھر ہماری بیٹیاں بھی اسی طرح؟ ; کار خاص، آپ کی ہمدردی کی خاطر میں خاص کوشش کروں گا کہ ہند میں رہنے والوں کے جتنے بھی خدا ہیں ان میں سے دستیاب خداؤں کی بھگوان سے ملاقات کا بندوبست کروں اور وہاں پر آپ کا مسئلہ زیر بحث لا کر اس کا فیصلہ کروایا جائے، یہ میرا وعدہ ہے، آپ ٹھہریں، میں بھگوان سے آپ کے لیے سورگ کی عرضی کرتا ہوں، بھگوان، ”ہاں چھوڑ آؤ، جلدی اور ان سے کہیں مجھے کرسی سے اتاریں، مجھے گرمی لگ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments