پنجاب کی محبتوں کا شکریہ!


مانجھے کو شیشے سے بچانے کے لئے پنجاب کی چوکنی پولیس دبے پاؤں شیشہ گروں کے گرد حلقہ تنگ کرتی گئی، بالآخرقدرت نے اپنی سنت پوری کرلی، حق و باطل پر کسمساتی نظروں سے ہنستی رہی، شرر بولہبی بجھ گئی، امت بسنت جیسی ہندووانہ بدعت سے بچ گئی۔ علما نے جمعے کے خطبوں میں خادم اعلیٰ اور ان کے صلاح کاروں کا شکریہ ادا کیا، ان کی طویل عمر کے لئے اجتماعی دعائیں کرائیں۔ پنجاب پولیس نے بھی شکرانے کے نوافل پڑھے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ اس کار خیر سے فراغت پاتے ہی، فلک نے ان سے ایک اور عظیم کارنامہ سر انجام دینے کی آزمائش لینی تھی۔ فروری کے دوسرے ہفتے کے آغاز میں ہی دہشت گردی کی ایک غیر متوقع لہر نے سر اٹھایا۔ اس بار پھر کشت و خون کے اس کاروبار کا آغاز کوئٹہ سے ہوا، اور یہاں سے ہوتا ہوا، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں جاکر لہر کی دھول بیٹھی۔

ان واقعات کے بعد پنجاب کی حکومت نے سونگھ لیا کہ دشمن ہمارے بیچوں بیچ موجود ہے۔ جس طرح وہ شخص دہشت گرد ہوتا ہے جس کے پاس بندوق ہو اور جہاز نہ ہو، اسی طرح ہر وہ شخص جو پٹھان، پشتون یا افغان ہو قطعی طور پر دہشت گرد ہوسکتا ہے۔ اگر وہ دہشت گرد نہیں ہے تو اسے افغان یا پشتون بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اس جدلیاتی رشتے کو ریاست کی قبائے برگزیدہ نے کم و بیش دو دہائیوں تک خوب سنبھالے رکھا۔ ’قدرت نے ذائقہ دیا، احمد نے محفوظ کیا‘ کے مصداق حکومت پنجاب نے بھی ریاست کی اس روش کو رگ و پے میں سمویا۔ لہٰذا گذشتہ دو ہفتوں سے پنجاب میں جہاں کوئی پشتون نظر آیا، پولیس کے دام محبت میں گرفتار ہوکر رہ گیا۔

حق بات یہ ہے کہ لاہور میں پھٹنے والے کا تعلق اس قبیل کے انسانوں سے بتایا جاتا ہے جہاں کی نصف سے زیادہ آبادی پکنک منانے اپنے علاقوں سے نکلے ہیں اور شوقیہ خود کو آئی ڈی پیز کہہ کر بلواتے ہیں۔ لوگوں سے خدمتیں کرواتے اور لائن میں گھنٹوں کھڑے ہوکر پتلی پیلی دال حاصل کرتے ہیں۔ آپ یہ ہر گز نہ سمجھئے کہ ان کو ارادتاً اپنے گھروں سے بے دخل کیا گیا ہے، یا پھرمٹی بھر طالبا ن کا بہانہ بناکر ان کے علاقے، عزت وناموس کو سر عام نیلام کیا گیا ہے۔ یقین کیجئے اگر ایسا کوئی بھی سوچتا ہے تو اس کی وجہ یا تو مالیخولیا کی بیماری ہے یا پھر وہ فطری جذبہ ہے جسے عربی میں حسد کہتے ہیں۔ دشمن ممالک اور کافر قوتوں کے پروردہ لوگ بھی یہی خیالات رکھتے ہیں۔ بہرحال مجال ہے جو کوئی ان شوقیہ مہاجر قبائلیوں کی عزت افزائی میں کوئی کسر چھوڑے، سندھ اور پنجاب نے تو ان کی اتنی خدمت کی کہ سر آنکھوں پر بٹھایا، جب ان کی طالبان سے آنکھ مچولی چل رہی تھی تو یہ چھپنے کے لئے سندھ اور پنجاب آنے کے خواہش مند تھے۔ لیکن انہوں نے ہنستے ہوئے اور پیار سے سمجھایا، کوئی گالی بھی نہیں دی اور بتایا کہ ہمیں اپنی جان سے پیارے غیور مسلمانو! یہ ہرگز مت سمجھنا کہ ہمیں اس کھیل میں آپ کی جیت مطلوب نہیں ہے لیکن کیا کریں ہمارا یہ خطہ بازیچہ اطفال نہیں ہے، بس آپ کہیں اور جاکر اپنا شوق پورا کریں۔ انہوں نے پتا نہیں کس کتاب میں پڑھا تھا کہ دیوار کی تمام اینٹوں کا قبیل ایک ہوتا ہے، ایک اینٹ دوسرے کا سہارا بنتی ہے، لیکن یہ توساری کتابی باتیں تھیں۔ گارے کی بنی اینٹ، سیمنٹ کے بنے بلاک سے کیا راہ و رسم رکھے آخر۔

اب جب پنجاب میں ان کی پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی شروع ہوئی ہے تو روز اخباروں کی شہ سرخیوں میں ان شعبدہ بازوں کے کارناموں کاا ذکر ہوتا ہے۔ کیوں نہ ہو، بسنت کے کھیل کو کامیابی سے فلاپ کرانے کے بعد پنجاب کی صوبائی حکومت نے فروری کے تیسرے ہفتے سے تذلیل ملت افغانیاں کے نام سے آپریشن کا آغاز کیا جوکہ کامیابی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ترجمان صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ایک طرف صوبے میں ماحول صاف کرنے کے لئے درخت لگانے کاکام شروع ہوا تو دوسری طرف صوبے کو پٹھانوں سے پاک کرنے کا احسن عمل بھی شروع ہوا ہے۔ یہ دہری خوش خبری سنتے ہی پنجاب کے راجے مہاراجے پھولے نہیں سماتے۔

ویسے ماننا پڑے گا، سیانوں کی باتیں حکمت سے خالی نہیں ہوتیں، ان میں اگر حکمت نہیں ہوتی تو بغیر حکمت کے بھی نہیں ہوتیں۔ کیا خوبب کہا ہے کہ خون سر چڑھ کر بولتا ہے۔ مختلف خون کی بو بھی مختلف ہوتی ہے، لہٰذا پولیس نے اپنی کامیاب اور آموزدہ جبلی حسیات کو استعمال کرتے ہوئے بلوں میں گھسے ہوئے پٹھانوں کو سونگھ لیا، ہر گلی کوچے میں لوگوں نے ان کی مدد کی، پہلے پہل مولا بخش نے ان کی خبر لی، کچھ نے تو شوقیہ مرغا بننے پر اصرار کیا اور اپنا شوق پورا کیا، کئی پشتونوں نے پولیس کے ڈنڈوں سے اپنے سر کو ٹکراکر خود کو لہو لہان کروایا کہ آخر مردانگی کا تقاضا بھی تو یہی ہے کہ پٹھان مرد کا بچہ ہے اور مرد کے بچے کو درد محسوس نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس آنکھ مچولی میں اگر کسی کو کشت و خون یا نسلی پروفائلنگ کا شبہ ہو تو وہ اپنے دماغ یا پھر آنکھوں کا علاج کراوئے۔

ترجمان صوبائی حکومت نے یہ نوید سنائی ہے کہ زیر حراست پشتون جو بظاہر کھلونے بیچتے ہیں، ٹرے میں قہوہ، اخروٹ، بادام بیچتے ہیں، ، بوٹ پالش کا ڈرامہ رچاتے ہیں، در اصل اپنی نوعیت کے سب سے اوچھے دہشت گرد ہیں۔ ان کے پاس صرف نادرا کے شناختی کارڈ ہیں جو کہ ہر افغانی دہشت گرد کے مارے جانے کے بعد برآمد ہوتا ہے۔ انہوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ زیر حراست پشتونوں نے انڈیا کی جانب سے کی گئی کراس بارڈر بمباری کی ذمہ داری خوشی خوشی قبول کی ہے، اور تو اور انہوں نے پون دو صدی پہلے جمرود کی جنگ میں رنجیت سنگھ کے مہان جنرل ہری سنگھ کے خون بہا کا بھی یقین دلایا ہے۔ فی الوقت رنجیت سنگھ کی ناکارہ آنکھ جو کہ چیچک سے ناکارہ ہوئی تھی کے بارے میں تفتیش ہورہی ہے، ہوش ربا حقائق جلد آیا چاہتے ہیں۔
حکومت خوش ہے کہ یہ آزمائشی منصوبہ ( پائلٹ پروجیکٹ) جن سے بنگالی سرخ رو ہوکر خوشی خوشی نکلے تھے اب پشتونوں کے لئے بھیی راہ ہموار کررہا ہے۔ حکومت کے نمائندے نے یہ بھی کہا کہ دھکم پیل سے بچتے ہوئے، باقی ماندہ اقوام کو ذرا تحمل سے کام لینا ہوگا اور قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments