سیاست دان اور بوٹ پالش


یہ سن 1985 کی بات ہے لاہور کے موچی دروازے میں حزب اختلاف کا ایک جلسہ ہو رہا تھا۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا دور تھا۔ اس جلسے سے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان خطاب کر رہے تھے۔ ولی خان نے کہا کہ سندھ، بلوچستان اور کے پی کئی دہائیوں فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف خلاف جنگ لڑ رہے ہیں لیکن فوج کے خلاف آخری جنگ وہ ہوگی جو پنجاب سے لڑی جائے گی۔ پھر چالیس سال بعد اس جنگ کا آغاز پاکستان کے تین مرتبہ کے منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کیا۔

نواز شریف نے یہ جنگ شروع کی تو فوج کو چھاؤنیوں اور بیرکوں میں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ پھر فوج کو سیاست سے الگ ہونے کا باقاعدہ اعلان بھی کرنا پڑا۔ آج عمران خان اور تحریک انصاف اپنی تقریروں میں جو فوج، عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر گولہ باری کر رہی ہے کل تک مسلم لیگ (ن) بھی یہی کر رہی تھی۔ فرق یہ ہے کہ کل تک تحریک انصاف ان اداروں کا دفاع کر رہی تھی آج مسلم لیگ (ن) کر رہی ہے۔ نواز شریف نے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو میر جعفر اور میر صادق نہیں کہا تھا بلکہ ان پر عمران خان کو مسلط کرنے کا الزام لگایا تھا۔

جبکہ عمران خان جنرل باجوہ اور جنرل ندیم انجم کو میر جعفر اور میر صادق قرار دے چکے ہیں۔ عمران خان کے اس بیان پر فوجی کے ترجمان جنرل بابر افتخار سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کی جانب سے سخت مذمتی بیانات آئے تو عمران خان نے یوٹرن لیا اور کہا میں نے یہ القابات نواز شریف اور شہباز شریف کے لئے استعمال کیے۔ لیکن سمجھنے والے سب سمجھ چکے تھے۔ خیر عمران خان پینترا بدلنے کی عادی ہیں۔ نواز شریف نے اپنے بیان سے یوٹرن نہیں لیا بس وقتی خاموشی ضرور اختیار کرلی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی خاموشی طویل ہوتی جا رہی ہے۔ نواز شریف پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات باخبر ضرور ہیں لیکن فی الحال خاموش ہیں۔ جب تک فوج عمران خان کے ساتھ کھڑی تھی تب تک پوری تحریک انصاف ایک پیج، ایک پیج کا چرچا کرتے تھکتی نہیں تھی۔ جب مسلم لیگ (ن) فوجی کے سیاسی کردار پر بات کرتی تھی تو فواد چوہدری، شیخ رشید اور شہباز گل جیسے لوگ باقاعدہ جنرل بابر افتخار کی ڈیوٹی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔

فوج کے متعلق مسلم لیگ نون کا کوئی بھی رہنما بات کرتا تھا تو اس کو تحریک انصاف فوراً غدار قرار دیتی تھی اور بھارت کا ایجنٹ قرار دیتی ہے۔ آج عمران خان حکومت میں نہیں ہے تو شیری مزاری اور اس کی بیٹی مان نہیں۔ وقت بڑا بے رحم ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے والے لوگ وقت بدلنے کے ساتھ پھر گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ یہی کچھ عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے۔ عمران خان کبھی جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے نمبر بلاک کرتے ہیں اور کبھی خود ہی ان بلاک کر دیتے ہیں۔

میرا تو پہلے دن سے ہی ایک موقف تھا کہ عمران خان جب حکومت سے نکلا تو یہ سب سے زیادہ خطرناک فوج کے لئے ثابت ہو گا اور آج وہی کچھ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف آج کل مریم نواز کی جنرل کے یونیفارم میں تصاویر وٹس ایپ گروپوں میں شیئر کر رہی ہے۔ جبکہ مریم اورنگزیب اور جنرل بابر افتخار کی ایک میٹنگ کی تصویروں کو ایڈٹ کر کے مریم اورنگزیب کے کپڑے جنرل بابر افتخار کو پہنائے جا رہے ہیں اور جنرل بابر افتخار کا یونیفارم مریم اورنگزیب کو پہنایا جا رہا ہے۔

فوج جب تک سیاسی معاملات میں پوری طرح ان تھی کوئی سیاستدان فوج پر اس لیول کی تنقید نہیں کرتا تھا جس لیول کی تنقید آج فوج کے نیوٹرل ہونے پر کی جا رہی ہے۔ جب جنرل بابر افتخار نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں لگے گا، جمہوریت عوام کا سر چشمہ ہے اور فوج اپنے حلف کی پاسداری کرے گی تو اس بیان کا ہر سیاسی جماعت کو خیر مقدم کرنے کی بجائے اولٹ مطلب لے لیا گیا۔

جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو جنرل بابر افتخار کی ایک ہی پوسٹ ہر بار نکالی جاتی ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔ یہ کام مسلم لیگ نون بھی کرتی ہے اور تحریک انصاف بھی کرتی ہے۔ فوج اگر سیاسی معاملات سے دور رہنے کا فیصلہ کرچکی ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کا اپنی سیاست چمکانے کے لئے فوج کو بار بار سیاست میں گھسیٹنا غیر مناسب ہے۔ اگر فوج خود کو بدل سکتی ہے تو سیاستدان کیوں نہیں بدل سکتے۔ سیاستدانوں کو یہ بوٹ پالش والا محاورہ اپنے ذہنوں سے نکالنا ہو گا۔ تمام سیاستدان جب تک بوٹ پالش کی ریس سے باہر نہیں نکلیں گے، نہ تو فوج سیاست سے دور ہو گی اور نہ ہی ملک ترقی کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments