کچھ مشاہدات جو اضطرابی کیفیت میں مبتلا کر گئے


طویل عرصے سے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوں یا یوں کہہ لیجیے کہ درس و تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے مشاہدات سے گزرنا معمول کا حصہ رہا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے کچھ ایسے مشاہدات بکثرت حاصل ہو رہے ہیں کہ جس سے نہ صرف میں غیر مطمئن ہوں بلکہ بارہا عجیب و غریب بے چینی و کراہیت محسوس ہونے لگتی ہے کیونکہ میرا مرکز و محور ہمارا آنے والا کل ہیں یعنی ہمارے بچے اب چونکہ میری اضطرابی کیفیت بڑھتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے اسی لئے آج اس اہم موضوع پر کچھ اپنے مشاہدات و تحفظات ضبط تحریر لا رہی ہوں اگرچہ یہ تلخ حقیقت بھی ضرور وہیں تاہم اپنے مستقبل کے معماروں کے لئے ہم سب ہی مل کر سوچتے ہیں اور بہتری کی کوئی راہ نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

سب سے عام اور مستقل طور پر بڑھتا ہوا مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں میں تعلیمی میدان میں تحقیق، جستجو، تجربات، مشاہدات کسی بھی حوالے اور درجے پر موجود نہیں ہیں اور ایک عام تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اب یہ دنیا بھر میں کہیں نہیں ہو رہا ہے جو کہ سراسر غلط ہے اب کرونا کہ بعد کی دنیا بھر میں تحقیق و جستجو مزید بڑھ رہی ہے آن لائن ای لرننگ نے بچوں میں تحقیق کی نئی اور دلچسپ راہیں کھول دی ہیں اور یہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کہ ہر ملک و قوم میں بچوں میں تجسس و غور و فکر کو ابھارنے کے لئے ان کی بنیادی جماعتوں ہی سے ان پر کام شروع کر دیا جاتا ہے ان کی پوشیدہ صلاحیتیں جانچ کر ابتدائی سالوں میں بے انتہا کام کیا جاتا ہے جس کے ثمرات و نتائج انھیں پرائمری جماعتوں سے آنا شروع ہو جاتے ہیں پھر جیسے جیسے علم اور عمر کے درجے بڑھتے ہیں غور و فکر، تحقیق، تجربات کے بھی دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور یہی ان اقوام کی کامیابی کی دلیل بھی ہے چاہے پھر وہ کامیابی طبی میدان میں ہو، صنعتی ہو، معاشی ہو یا معاشرتی ہو ہر سطح پر بہتری اور کامیابی ان ہی کا مقدر نظر آتی ہے۔

دوسرا اہم مشاہدہ تعلیمی میدان میں نمبر گیم کا بڑھتا ہوا رجحان ہے آج کا / کی ہر طالبعلم بس اسی تگ و دو میں لگا ہوا ہے کسی طرح بہترین نمبر حاصل کر سکوں اس سے قطع نظر کہ پڑھے گئے درجوں کے تصورات کا فہم حاصل بھی ہوا ہے کہ نہیں اس کے لئے آج کا / کی طالبعلم ہر جائز و نا جائز ذرائع کا نہ صرف استعمال کر رہا ہے بلکہ بطور والدین اور اساتذہ کہ ہم بھی اس کی خواہش کے حصول میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جو کہ ایک سنگین جرم اور غلطی بھی ہو سکتی ہے۔

تیسرا اہم مشاہدہ آج کے بچوں، نوجوانوں میں دولت کے حصول کی کی ایسی خواہش جو کہ ہر ضابطے، قوانین سے آزاد ہے ہمیں آج کے ہر نوجوان بلکہ بچوں میں بھی دولت، طاقت اور آسائشات کی حد درجہ خواہش نظر آتی ہے بلکہ اس کو ہوس کہنا زیادہ بہتر ہو گا اس ہوس کو پورا کرنے کے لئے آج کا نوجوان، بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی ہر قیمت ادا کرنے کو تیار نظر آتے ہیں حالانکہ انھیں پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ ان سب کرنے کہ باوجود انہیں وہ سب مل بھی پائے گا کہ نہیں لیکن ایک اندھی تقلید ہے کہ کیے جا رہے ہیں ایک گہری کھائی ہے سب کہ سب اسی میں یکے بعد دیگرے گرتے جا رہے ہیں اور اس سب کو وہ اور ہم بڑے بھی محنت اور کوشش کا نام دیے جا رہے ہیں۔

اب بات کرنا ہے اس موضوع پر کہ جس کہ بارے میں بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اسی لیے میں نے بھی محتاط الفاظ کا استعمال کرنے کی کشش کی ہے ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی عمر میں بچوں کی جسمانی، ذہنی، سماجی، اور روحانی ضروریات اور ترجیحات بدلتی ہیں ان پر ہمیں بہت احتیاط اور مثبت انداز سے ان کی رہنمائی کرنی چاہیے ایسے میں انھیں شرم و حیا اور مذہبی رکاوٹوں کا نام دے کر چھوڑا نہیں جانا چاہیے ہمارا مذہب تو دین فطرت ہے اس میں ہر معاملے میں ہر موقعے کی مناسبت سے رہنمائی کی گئی ہے اور ہمیں ضرورت صرف وقت نکال کر توجہ دینے کی ہے میرا مشاہدہ گزشتہ کچھ عرصے بالکل مختلف ہے بڑھتے ہوئے بچوں میں جنسی خواہش یا میں اسے بے راہ روی کا نام دینا چاہوں گی کیوں کہ سماجی، معاشرتی، مذہبی یا ثقافتی کسی بھی حوالے سے کسی بھی مذہب، قوم، یا معاشرے کی ثقافت کا وہ سب کچھ نہیں ہو سکتا یا ہو سکتی جسے میں دیکھ رہی ہوں آج کا بچہ، بچی اسے مہم جوانہ تفریح، نئی دنیا سے آگاہی، اپنی ضرورت سمجھ کر انجام دہی کی طرف گامزن ہے اس خواہش کی تکمیل کے لئے ہر سطح پر بے باکی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر میں جنسی خواہشات فطری ہیں لیکن موثر انداز سے سے ان کا اظہار کیا جانا مثبت ہو سکتا ہے بحیثیت استاد ہماری اپنی بھی ذمہ داری بڑی اہم ہے لیکن اس معاملے پر بھرپور رہنمائی میں والدین، گھریلو ماحول اور پھر اردگرد کی بھی خاص اہمیت رکھتا ہے یہاں میں ایک حدیث مبارکہ ضرور شامل کرنا چاہوں گی کہ یہ ہماری دی جا نے والی تعلیم و تربیت میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے

محسن انسانیت ﷺ فرماتے ہیں کہ
والدین اپنی اولاد کو جو کچھ دیتے ہیں ان سب سے بہترین عطیہ ان کی تعلیم و تربیت ہے ”

اس سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صرف تعلیم ہی نہیں تربیت بھی ضروری ہے آج کل ہم سب کی نظر میں تعلیم، ڈگری کی تو بہت اہمیت ہے لیکن تربیت کہیں نظر نہیں آتی ہم استاد بہت کچھ دیکھتے ہوئے بھی کچھ ایسے معاملات ہوتے ہیں جن پر کوئی عمل نہ خود کروا سکتے ہیں نہ ہی اداروں کی جانب سے اجازت دی جاتی ہے کیونکہ نام نہاد اظہار رائے کی آزادی اور بھاری بھر کم وصول شدہ فیسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگ جنہیں صرف اداروں کی پالیسیوں پر عمل کروانے کے علاوہ کہیں کچھ کہنے تک کا حاصل نہیں ہے ایسے میں والدین ہی کو پنا کردار بھرپور انداز میں نبھانا ہو گا۔

دنیا میں آنے والی نت نئی ایجادات سے دنیا بھرپور اور مثبت انداز سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور ہر بدلتے ہوئے دن کے ساتھ اس نئی جدید دنیا میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے لیکن ہم اپنے مستقبل کے معماروں کے لئے کوئی رہنمائی کہیں کسی سطح پر بھی فراہم نہیں کر پا رہے ہیں اس جدت آمیز ٹیکنالوجی کہ سارے کہ سار منفی انداز آپ کو ضرور ہمارے معاشرے کہ ہر طبقے کی بچوں میں نظر آئیں گے کیونکہ ہما رے پاس ان کی رہنمائی، نگرانی کرنے کا وقت نہیں ہے یا ہم چاہتے ہی نہیں اور بازپرس کر نے کہ ہم قابل نہیں کیونکہ بازپرس کے عمل سے پہلے ہمیں خود کو اس عمل کے قابل بنا نا ہو گا ورنہ کئی سوالات ہماری اپنی ذات پر اٹھ جائیں گے جو کہ ہمیں بالکل برداشت نہیں ہوں گے۔

یوں بھی کہا جاتا ہے کہ فحاشی و عریانیت کے حوالے سے موجود مواد تک رسائی جتنے ہمارے نوجوانوں نے حاصل کی وہاں تک جدید دنیا بھی نہیں پہنچ پائی اگرچہ میں اس سے بھی پوری طرح متفق نہیں تاہم بڑھتے ہوئے مشاہدات سے فکر مند ضرور ہوں کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کے پہلو کو نظر انداز نہ جائے اس درجہ تنزلی کے باوجود پر امید ہوں کہ دل سے کی جانے والی کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں۔

اب ان کوششوں کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ہمیں خود کو اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے وقف کرنا ہو گا استاد والدین کو بچے کے ہر عمل کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں اور نہ ہی والدین تربیت کی ذمہ داری اساتذہ پر ڈالیں بچوں کی ابتدائی سالوں ہی سے نہ صرف ان کی غذائی، صحت کی ضروریات بلکہ سماجی ضروریات، نفسیاتی، نفسانی کیفیت و ضروریات، معاشی، معاشرتی اور خاص طور پر روحانی ضروریات پوری کریں اور خاص طور پر ان کی ان صلاحیتوں کو بچپن ہی سے جان کر ان پر توجہ دیں ان سے کھل کر آزادانہ ماحول میں بات کریں، ان کی بات سنیں مذہب میں دیے گئے تمام حقوق سے آگاہی فراہم کریں ان کو معاشرے میں حاصل حقوق سے آگاہی دیں اور پھر انھیں وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ذمہ داریاں اور فرائض سے سے بھی آگاہ کرنا بھی ہمارا کام ہے تب ہی یہ بچے ہمارا فخر بن سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments