عمران خان کی نا اہلی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا


خبروں کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس میں اتحادی پارٹیوں کے ایک اجلاس میں عمران خان کی نا اہلی کے لئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جلد ہی کابینہ سے اس کی منظوری لی جائے گی۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ تحریک انصاف کے متعدد لیڈروں کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں گے اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں گے۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کے خلاف آنے والے فیصلہ کے بعد حکومتی پارٹیوں کا یہ فیصلہ غیر متوقع تو نہیں ہے لیکن اسے غیر دانشمندانہ ضرور کہا جاسکتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ حکومت اس معاملہ میں فریق بننے سے گریز کرتی اور غیر قانونی اقدام پر الیکشن کمیشن کو اپنے طور پر کارروائی کرنے دیتی۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز تحریک انصاف کی فنڈنگ کو دستاویز کرتے ہوئے یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ اس حوالے سے ناجائز طور سے جمع کیے ہوئے فنڈز کو ضبط کرنے کے لئے شو کاز نوٹس دیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ قانونی معاملات وقت کے ساتھ ہی طے ہوں گے اور اگر حکومت سیاسی ضرورتوں کے تحت سرگرمی دکھانے کی کوشش نہ کرے تو ملکی سیاسی ماحول میں ضبط و حوصلہ اور فراخدلی کی ایک بہتر مثال قائم کی جا سکتی ہے۔ تاہم موجودہ سنسنی خیز ماحول میں اس کا امکان معدوم ہوتا جا رہا ہے۔

الیکشن کمیشن کا حکم سامنے آنے کے بعد لندن میں مقیم مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے تو کل ہی عمران خان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ آج جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور اتحادی حکومت کے اہم حلیف مولانا فضل الرحمان نے بھی عمران خان کو عبرت ناک سزا دلوانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاسی عصبیت کے موجودہ ماحول میں حکومتی پارٹیوں کے پاس شاید اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حکومتی کارکردگی، اس کی پالیسیوں اور منصوبوں سے ماپنے کی بجائے سخت گیری اور مخالفین کو نشان عبرت بنانے کے طریقوں سے پہچانی جانے لگی ہے۔ عمران خان نے حکومت میں ہوتے ہوئے یہی حکمت عملی اختیار کی تھی۔ ان کی کوشش رہی کہ کسی بھی قیمت پر نواز شریف اور دیگر مخالفین کو سیاسی میدان سے باہر رکھا جائے بلکہ انہیں سیاست سے تائب ہونے کے لئے طویل مدت تک جیلوں میں بند کر دیا جائے۔

عمران خان اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اکثر یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ عدالتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا ورنہ وہ متعدد لوگوں کو سخت سزا دلواتے۔ ظاہر ہے کہ وہ ہر مخالف پر اپنی سیاسی ضرورت کے تحت جو الزام لگاتے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ عدالتیں بھی ان کو درست تسلیم کرتے ہوئے بس کسی بھی طرح مخالفین کو جیلوں میں بند کر دیتیں یا ان کی مخالف سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا کر ان کے لئے میدان صاف کر دیتیں۔ اب سیاسی کھیل تبدیل ہونے سے یہی موقع اتحادی پارٹیوں کو ملا ہے۔

حکومتی اتحاد کے نمایاں لیڈروں کے بیانات سے وہی عداوت اور دشمنی جھلک رہی ہے جو کسی حد تک عمران خان کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ اس کی نمائندگی وزیر قانون یہ کہتے ہوئے کر رہے ہیں کہ حکومت تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا اقدام بھی کر سکتی ہے۔ تاہم خوش قسمتی سے کسی سیاسی پارٹی پر پابندی لگانا صرف حکومت کا اختیار نہیں ہے بلکہ اسے اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجنا پڑے گا تاکہ عدالت عظمی شواہد اور ثبوتوں کی روشنی میں فیصلہ کرسکے۔

بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ اور ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جانے کے بعد ایسا ریفرنس بھیجنا ممکن بھی ہے اور اسے عدالت منظور بھی کر سکتی ہے۔ البتہ موجودہ حالات میں حکومتی پارٹیوں کا زیادہ فوکس تحریک انصاف پر پابندی لگوانے کی بجائے عمران خان کو کسی بھی طرح نا اہل کروانے پر ہو گا۔ دسمبر 2017 میں اسی حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے لیڈر حنیف عباسی کی پٹیشن پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو تو نا اہل قرار دیا تھا لیکن عمران خان کو یہ کہتے ہوئے آئین کی شق 62 کے تحت ’صادق و امین‘ تسلیم کیا تھا کہ ان کے خلاف آف شور کمپنی رکھنے کے الزام میں کارروائی نہیں ہو سکتی کیوں کہ وہ ایسی کسی کمپنی کے حصہ دار یا ڈائریکٹر نہیں تھے۔

حنیف عباسی کی درخواست میں تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے کارروائی کی استدعا بھی کی گئی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اس معاملہ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرنے کا مجاز ہے۔ حنیف عباسی اس میں فریق نہیں بن سکتے تھے۔ اب الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان کو پارٹی اکاؤنٹس کے بارے میں جھوٹے حلف نامے جمع کروانے کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ بعض قانونی ماہرین اور سیاسی مخالفین کے خیال میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ عمران خان کو نا اہل قرار دینے سے انکار نہیں کر سکتی۔

اس پس منظر میں حکومت کی کوشش ہوگی کہ تحریک انصاف پر پابندی کی بجائے جھوٹے حلف نامے دینے کے الزام میں عمران خان کو سیاست سے نا اہل قرار دلوایا جائے۔ سپریم کورٹ پانامہ کیس میں اپنے بیٹے کی کمپنی سے ایک ’غیر وصول شدہ‘ تنخواہ کا الیکشن کمیشن کے حلف نامے میں ذکر نہ کرنے پر نواز شریف کو بد دیانت قرار دیتے ہوئے نا اہل قرار دے چکی ہے۔ تاہم بعض قانونی ماہرین نشاندہی کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے بعد میں خواجہ آصف کے کیس میں یہ بھی قرار دیا تھا کہ ’یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ حلف نامہ میں غلط بیانی سہواً ہوئی تھی یا جھوٹ بولنے کی نیت تھی‘ ۔ گویا عدالت عظمی نے ایک ہی جیسے معاملات میں علیحدہ علیحدہ معیار قائم کیے ہیں۔

یہی کیفیت حال ہی میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے تحریک انصاف کے پچیس ارکان اسمبلی کو نا اہل قرار دیا گیا تھا اور ان کے ووٹ شمار نہیں کیے گئے۔ البتہ جب دوبارہ انتخاب میں مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت کی ہدایت کے برعکس دیے گئے ووٹوں کو جائز کہا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کسی معاملہ میں قانون کی کیسی ہی باریک بینی سے تشریح کرتے ہوئے کسی نتیجہ پر پہنچے لیکن ماضی میں عدلیہ کے کردار اور بعض ججوں کے بارے میں پائے جانے والے شبہات کی وجہ سے اسے ایک خاص زاویہ سے دیکھا جائے گا۔ عمران خان کی نا اہلی کے بارے میں بھیجا جانے والے ریفرنس اور اس پر کسی فیصلہ کو بھی اسی حوالے سے دیکھا جائے گا کہ ملک میں طاقت کے اصل مراکز کیا چاہتے ہیں۔ یہ عام تاثر موجود ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کسی بڑے سیاسی لیڈر کو سیاست سے باہر کرنے کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ گویا عمران خان کی نا اہلی کا فیصلہ قانونی میرٹ پر نہیں بلکہ اس پر منحصر ہو گا کہ اسٹبلشمنٹ انہیں کس حد تک سیاست میں برداشت کرنے پر تیار ہے۔

یہ قیاس موجود ہے کہ عمران خان کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی اور ہر ادارے کو نشانے پر لینے کی پالیسی کی وجہ سے عمران خان اداروں کے لئے زیادہ سے زیادہ ناقابل قبول ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی سرپرستی کرنے والے اور انہیں ایک نیا موقع دینے والے حلقے کمزور ہوئے ہیں۔ خیال ہے کہ نا اہلی کا معاملہ اگر سپریم کورٹ تک پہنچتا ہے تو کوئی بھی فیصلہ اسی صورت حال کا عکاس ہو گا۔

اس سوال سے قطع نظر کہ عدالتوں میں فیصلے کیسے ہوتے ہیں، عمران خان کے خلاف کوئی بھی حکومتی کارروائی اور اس میں کامیابی کے سیاسی مضمرات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ نواز شریف کو نا اہل کروا دینے کے بعد نہ تو ان کی سیاسی حیثیت کو ختم کیا جا سکا اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کو کمزور کیا جا سکا۔ یہ پارٹی اب بھی مقبول ہے بلکہ اس کا صدر اس وقت ملک کا وزیر اعظم ہے۔ عمران خان کو نا اہل قرار دینے کی صورت میں ان کے سیاسی اثر و رسوخ کو کم نہیں کیا جا سکے گا بلکہ عمران خان کے حامیوں میں تازہ جوش و ولولہ پیدا ہو گا۔ تاہم تحریک انصاف کو یہ مسئلہ ضرور درپیش ہو گا کہ اس کے پاس عمران خان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ پارٹی فرد واحد کے سحر ہی کے گرد گھومتی ہے۔ نہ تو پارٹی کا ڈھانچہ موجود ہے اور نہ ہی دوسرے نمبر کی قیادت پر اتفاق رائے ہے۔ ایسا کوئی دوسرا لیڈر بھی موجود نہیں ہے جو عمران خان کے سیاسی بیانیہ کو اسی شدت سے آگے بڑھا سکے۔ نا اہل ہونے کی صورت میں پارٹی کی سیاسی کامیابی کے بارے میں عمران خان کی ذاتی دلچسپی بھی کم ہو جائے گی کیوں کہ ان کا کوئی وارث پارٹی نہیں سنبھالے گا۔

تاہم عمران خان کے مقام و مرتبہ والے سیاسی لیڈر کو نا اہل قرار دینے کے فوری سیاسی مضمرات ضرور دیکھنے میں آئیں گے اور یہ فیصلہ ملک میں سیاست دانوں کو عدالتی یا انتظامی کارروائیوں کے ذریعے سیاست سے باہر کرنے کی روایت کو مستحکم کرے گا۔ یہ طریقہ کسی بھی طرح ملک میں سیاسی جمہوری روایت کو مضبوط کرنے کا سبب نہیں ہو گا بلکہ اس سے سیاست پر اسٹبلشمنٹ اور اداروں کی گرفت مضبوط ہوگی خواہ ان میں سپریم کورٹ جیسا عدالتی ادارہ ہی کیوں شامل نہ ہو۔ عدالتوں سے صادر ہونے والے سیاسی فیصلے عوامی خواہشات کی نمائندگی نہیں کرتے۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر کسی نے کوئی ملکی قانون توڑا ہے تو اس کی سزا تو بہر حال عدالت ہی دے گی اور اسے غلط بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

دوسری طرف الیکشن کمیشن جیسے دستوری ادارے کے فیصلے اور اس پر تحریک انصاف کے رد عمل سے دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاسی گرم جوشی میں اصولوں اور قانونی تقاضوں کو کچلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ تحریک انصاف اب بھی تصادم ہی کی طرف جانا چاہتی ہے۔ فی الوقت پارٹی لیڈروں کے علاوہ عمران خان کے بیانات سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ البتہ عمران خان نے آج رات ایک ٹی وی انٹرویو میں بہت زیادہ جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور الیکشن کمیشن کے خلاف جمعہ کو احتجاج بھی ریڈ زون سے باہر محدود رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر عمران خان سیاسی شدت میں کمی کرتے ہیں تو حکومتی پارٹیوں کو بھی دوسری انتہا کی طرف بڑھنے کی بجائے مفاہمت کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ عمران خان نے تازہ انٹرویو میں خاص طور سے ملکی معیشت کا ذکر کیا ہے اور بجا طور سے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے انتظار میں ملک کو روک کر نہیں رکھا جاسکتا۔ تاہم انہیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ ملک کے معاشی حالات موجودہ سیاسی شدت پسندی، ذاتی دشمنی اور تصادم کے متحمل بھی نہیں ہوسکتے۔

بہتر ہو گا اگر تمام سیاسی پارٹیاں اس بحران سے نکلنے کے لئے قانونی موشگافیوں یا اداروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے باہم بیٹھ کر سیاسی مکالمہ کریں اور معیشت کو مزید دباؤ و تباہی سے بچانے کا اہتمام کریں۔ سیاسی قوتیں معیشت کا ہوا دکھا کر اگر اب بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہی کریں گی تو اس میں جیت تو کسی نہیں ہوگی البتہ ملک ہارتا دکھائی دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments