شریف فیملی، ایون فیلڈ کیس اور قانون کا اصول مستقل مزاجی


کریمنل ایڈمنسٹریشن آف جسٹس میں اس اصول کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس اصول کو
on the same footing
یا ایٹ پار بھی کہا جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک ہی کیس میں شریک ملزمان کا کردار کتنی یکسانیت رکھتا ہے اور اسی یکسانیت کے بل بوتے پر ملزمان کو قانونی موشگافیوں سے گزارہ جاتا ہے۔ اگر ایک ہی واقعے میں شریک ملزمان ایک ہی طرح کی واردات کے مرتکب ہوتے ہیں اور سب نے اپنا اپنا رول ایک دوسرے کے مماثل ادا کیا ہے تو سب کو ایک ہی طرح سے سزا اور جزا کے اصول سے گزارہ جائے گا۔

اس ضمن میں، میں کریمنل کیس کی ایک مثال دے دیتا ہوں کہ جس میں ایف آئی آر میں ڈیوٹی افسر یا سرکاری مدعی لکھتے ہیں کہ من انسپکٹر فلاں دیگر ہمراہ ملازمان کے انسداد جرم کے سلسلے میں تھانہ ہذا کے علاقے میں گشت پر تھے کہ دوران گشت ہم نے تین افراد کو مشتبہ حالت میں اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا۔ قریب آنے پر انھوں نے اپنی موٹر سائیکل کا رخ واپس موڑ کر بھاگنے کی کوشش کی جن کا ہم نے پیچھا کیا تھوڑی دور جانے کے بعد ان سے موٹر سائیکل بے قابو ہو کر نالے میں گری۔

جن میں سے ایک ملزم بھاگنے میں کامیاب ہو گیا جبکہ دو ملزمان کو حراست میں لیا۔ جب ان کی تلاشی لی تو ان کی پہنی ہوئی شلواروں کے نیفوں میں اوڑسی ہوئی تیس تیس بور کے لوڈڈ میگزینز، بلا نمبری اور بلا لائسنسز کے پسٹلز برآمد ہوئے۔ فرد موقع پر مرتب کی گئی اسلحے کو موقع پر سیل کیا گیا اور ملزمان کو باضابطہ گرفتار کر کے تھانے میں لے آئے جہاں زیر دفعہ ایک سو چون کا بیان رکارڈ کروایا جس سے ملزمان کا یہ عمل زیر دفعہ تئیس ون اے سندھ آرمز ایکٹ دو ہزار تیرہ کا ہونا پایا۔

اب جب یہ کیس چلے گا یا ٹرائل ہو گا تو دونوں ملزمان کو ایک طرح سے ٹرائل کیا جائے گا اگر ایک کی ضمانت ہوتی ہے تو دوسرے کی بھی ہوگی اگر ایک رہا ہوتا ہے تو دوسرا بھی رہا ہو گا۔ اور اس عمل کو یا اس اصول کو رول آف کنسسٹینسی یا اصول مستقل مزاجی کہا جاتا ہے۔

اب اگر ایون فیلڈ کیس کے فیکٹ پر بات کریں تو اس کے فیکٹ بھی یکساں ہیں، ثبوت بھی ایک طرح کے ہیں اور کردار بھی مماثل ہیں۔ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ چونکہ نیب تینوں ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو دستاویزی طور پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے

مالکان ثابت نہ کرسکیں اور مریم نواز سمیت کیپٹن صفدر کو بھی بری کر دیا گیا۔

اب یہ فیصلہ نوز شریف کے لئے اصول مستقل مزاجی کے تحت بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور وہ بھی اسی اصول کے تحت اس کیس میں بری ہوسکتے ہیں جس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی بیٹی مریم اور ان کے شوہر اور نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر رہا ہوئے ہیں۔

پی ایل جے 2011 سی آر سی صفحہ 905
پی ایل جے 2012 سی آر سی صفحہ 346
پی ایل جے 2013 سی آر سی صفحہ 780
پی ایل جے 2013 سی آر سی صفحہ 16
پی ایل جے 2014 سی آر سی صفحہ 266
پی ایل جے 2014 سی آر سی صفحہ 124
میں رول آف کنسسٹینسی یا اصول مستقل مزاجی کے تحت ضمانتیں دی گئی ہیں۔

البتہ پی ایل ڈی 1984 سپریم کورٹ صفحہ 84 میں اس طرح کے بھی آبزرویشن ہیں کہ ایک ملزم کو ضمانت دینا یہ بالکل جواز مہیا نہیں کرتا کہ دوسرے ملزم کو بھی ضمانت دی جائے اگر ادروائز یا دوسری صورت میں وہ ضمانت کا حقدار نہ ہو۔

بالکل اسی طرح ایس سی ایم آر 2010 صفحہ 1735 بھی یہ آبزرویشن ہیں کہ رول آف کنسسٹینسی یا اصول مستقل مزاجی کو stricto sensu جو لاطینی لفظ ہے جس کا انگریزی ترجمہ strictly یا in the strict sens یا nerow speaking کیا گیا ہے۔ یعنی اس اصول کو مخصوص مفہوم میں لاگو نہیں کیا جائے گا۔

اب دیکھیں حکومت سازگار ماحول کو کس طرح مزید سازگار بناتی ہے یا پھر حزب اختلاف اس سازگار ماحول کو ناسازگاری کی طرف دھکیلتی ہے۔ پچ کے ایمپائرز اور میچ ریفری کے فیصلوں کو بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کون سا فریق ریفرل کا استعمال درست اور بروقت کرتا ہے۔ کیونکہ غلط اور بے وقت ریفرل ضائع بھی جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments