تحریک اسلامی: حکمت عملی، غور و فکر کے چند پہلو


سیاسی کامیابی کے لیے بلاشبہ پالیسیوں کا بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہے اور بہتر سے بہتر حکمت عملی ترتیب دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جبکہ سیاسی اور نظریاتی تشخص کی بہتری اور خوبصورتی کے لیے بھی اقدامات اٹھانا لازمی ہیں، مگر ان سب امور کی جو بنیاد ہے اس پر توجہ دیے بغیر کچھ پانے کی امید رکھنا اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔

مجموعی طور پہ آج کی اسلامی تحریکوں کے سامنے ایک اہم چیلنج یہ ہے کہ بدلتے حالات اور نئے رجحانات کے پیش نظر چیلنجز کا ادراک اور مقابلے کی راہیں اور موثر عملی حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے؟ خیال کیا جاتا ہے کہ اس اہم ایشو پر غور و فکر، تجزیے اور منصوبہ بندی کرتے ہوئے عموماً ان تین دائروں کو مطلوبہ توجہ نہیں دی جاتی۔ گویا کہ ”نظریں ہمیشہ سے آفاق ہی پر رہتی ہیں مگر قدموں کی جانب توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ درست بات یہ ہے کہ نظریں بلاشبہ آفاق ہی پر ہوں مگر قدم مضبوطی کے ساتھ زمین پر ہوں۔ قدموں کو جمائے بغیر ہواؤں میں گھورنے سے کچھ پانا ناممکن ہے۔ ہمارے خیال میں جو تین اہم ترین پہلو ہیں، جن کا بہت نیچے تک جائزہ لینا ناگزیر ہے وہ :

تنظیم،
تربیت،
دعوت۔
تنظیم:
دیکھنا ہو گا کہ تحریک اسلامی کی تنظیم کیا واقعی اتنے بڑے بوجھ کو اٹھانے کی لائق ہے؟
کیا تنظیم بوجھل پن کا شکار تو نہیں؟
کہیں تنظیم پر جمود طاری تو نہیں؟
کہیں تنظیم برائے تنظیم والا معاملہ تو نہیں؟
کہیں تنظیم ایک خاص ”دائرے“ کی محافظ تو نہیں؟
کہیں تنظیم کی بقاء اور استحکام مقصود تو نہیں ٹھہرا ہوا؟
کیا تنظیم میں مطلوبہ یکسوئی موجود ہے؟

یہ جان لینا ضروری ہے کہ تحریکی وسعت سے خوف نہیں کھانا چاہیے اور اپنے دائروں کو وسیع سے وسیع تر کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ مگر اس کی بنیاد کو مستحکم، موثر اور فعال رکھنا از حد لازم ہے۔ فی الوقت جو چیز زیادہ قابل توجہ ہے، وہ ہے تنظیم میں مکمل یکسوئی کا حصول۔

یکسوئی کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ہر سطح پر حقیقی مشاورت کرنا، ’کمیونیکیشن گیپ‘ کو کم سے کم کرنا، کارکنان کو اعتماد دلانا، عدل کے تصور کو عملی جامہ پہنانا اور احتساب کے نظام کو موثر بنانا۔

مرض کی اگر بروقت تشخیص نہ ہو تو وہ ناسور کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور جسم کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ انسانی جماعتوں میں اختلافات کا ہونا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے اور نہ اسے مکمل طور پر ختم کرنا ممکن ہے۔ مگر اسے کم سے کم کرنا اور اس کے اثر کو کم تر رکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے بروقت اقدامات اٹھانا اور اس حوالے سے حساسیت کو برقرار رکھنا انتہائی اہم ہے۔ اختلافات، مسائل اور تنازعات پر چشم پوشی اختیار کرنا، اسے نظرانداز کرنا اور اسے کوئی اہمیت نہ دینا کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی۔ کچرے کو قالین کے نیچے کب تک چھپایا جاسکتا ہے؟

تربیت:
تربیت کا جائزہ تین دائروں میں لینا ضروری ہے۔

الف: کیا ایسے افراد کی مطلوبہ تعداد موجود ہے جو اس تحریک کی فکری، علمی اور نظریاتی راہ نمائی بھی کرے اور اس حوالے سے چیلنجز کا ادراک کر کے پیش بندی بھی کر پائے؟

ایسے افراد کی تیاری کیا ترجیحات میں شامل ہے؟
ب: اس تحریک کے وابستگان کی اخلاقی، روحانی اور علمی معیار کیا تھا، کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

تحریکی شعور اور للہیت کا مطلوبہ معیار اگر برقرار نہیں ہے تو کیسے اتنا بڑا انقلاب برپا کیا جا سکے گا؟

ج: یہ بھی دیکھنا ازحد لازم ہے کہ ہر سطح کی قیادت کہاں تک قیادت کے اوصاف سے مزین ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ نچلی سطح کی قیادت کو تحریک کے طریقہ کار، حکمت عملی اور پالیسیوں کا ادراک ہی نہیں؟

تحریک جو اہداف رکھتی ہے، جو ترجیحات طے کرتی ہے اور جو منصوبہ تیار کرتی ہے کیا اس پر عمل درآمد ہوتا ہے؟

جب تک ہر سطح کے لیے ایسی قیادت تیار نہ ہو کہ وہ نہ صرف تحریکی مزاج کا حامل ہو بلکہ ساتھ سکیل بھی رکھتی ہو یعنی وہ تنظیم کے تقاضوں کو بھی سمجھتی ہو، ٹیم ورک کے ساتھ کام کرنے کا بھی ماہر ہو، خود کچھ کرنے اور کرانے کی اہلیت بھی رکھتی ہو اور افراد کے درست اور موثر استعمال کا گر بھی جانتی ہو۔

مرکزی سطح پر قیادت جتنی بھی متحرک کیوں نہ ہو، پوری تنظیم پر ایسا ہی جمود طاری ہو گا یعنی ”سر گرم اور دھڑ ٹھنڈا“ والا معاملہ۔

منصوبے تو محض کاغذ کے نقشے ہوتے ہیں۔ ان میں رنگ بھرنا تو نچلی قیادت کا کام ہوتا ہے اور اگر یہ لوگ مطلوبہ معیار ہی کیا، کم سے کم معیار پر بھی پورے نہ اترتے ہوں تو اہداف کا حصول دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔

دعوت؛

سید مودودیؒ نے فرمایا تھا کہ جہاں اشاعت دین کا اختتام ہوتا ہے وہاں سے اقامت دین کی جدوجہد شروع ہوتی ہے۔ مراد یہی ہے کہ اقامت دین تو منزل ہے مگر اشاعت دین تو راستہ ہے اگر سفر ہی راستے پر نہ ہو تو منزل پر کیسے پہنچا جاسکتا ہے؟

اس حوالے سے جائزہ لینا چاہیے کہ کیا کارکن اپنی دعوت سے اچھی طرح آگاہ ہے؟ وہ تحریک کے طریقہ کار سے واقف ہے؟

اس طرح قیادت کو یہ دیکھنا ہے کہ تطہیر افکار، تطہیر معاشرہ اور تطہیری نظام ان تین دائروں کے لیے سوچ اور پلاننگ میں کتنا توازن قائم ہے؟

توجہ فی الوقت یہی ہے اور یہی ترجیح ہونی چاہیے کہ معاشرے کو اپنی جانب متوجہ کرانے کے ساتھ ساتھ افراد سازی کو انکھوں سے اوجھل نہیں کرنا چاہیے۔ افراد ہی تطہیر معاشرہ کے لیے جدوجہد کریں گے اگر فرد ہی کم سے کم مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اتریں گے تو اس بھاری بوجھ کو کیسے اٹھایا جاسکتا ہے؟

جب تک کارکن اپنی اپنی جگہ پر متحرک نہ ہوں تو تنظیمی سرگرمیاں اور قیادت کی جاں گسل جدوجہد اور تحرک ایک حد سے زیادہ معاشرے میں نفوذ کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔

فوکس اس پر ہونا چاہیے کہ کارکن دعوتی مزاج کا حامل ہوں۔ یعنی دعوت دین کے حوالے سے دل میں سوز، درد، تڑپ اور فکرمندی کے جذبات ہوں۔

ایک عام سے پیمانے کو اٹھا کر اس حوالے سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ یعنی دیکھ لینا چاہیے کہ کیا اس دعوتی تحریک کا کوئی کارکن ہی کیا قیادت کے منصب پر فائز ذمہ داران تک اپنے ادارے، دفتر اور گھر میں بھی دعوت کا کام کرتے ہیں کہ نہیں؟

اسی طرح جائزے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کروڑوں لوگوں تک اپنی دعوت پہنچانی ہے، لاکھوں لوگوں کو اس کام کے لیے اپنے ساتھ ملانا ہے اور ایک بڑی معقول تعداد ایسے لوگوں کی تیار کرنی ہے جن کا اوڑھنا بچھونا یہ تحریک اور اس کی دعوت ہو اور اپنا سب کچھ اس راہ میں لٹانے پر خوشی اور اطمینان محسوس کرنے والے ہوں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اتنے بڑے پیمانے پر دعوتی سرگرمیاں ہوتی ہیں؟ اور ان سرگرمیوں کے ذریعے اتنی بڑی تعداد کو دعوت پہنچ بھی پاتی ہے؟

آسان سی بات یہ ہے کہ ایک مضبوط سے مضبوط یونٹ اور فعال یونٹ و مقام میں ہفتہ وار یا ماہانہ دعوتی سرگرمیاں کتنی ہوتی ہیں اور اس میں حاضری کتنی رہتی ہے؟

اگر حال یہ ہو کہ چند ارکان و کارکنان کا اکٹھ ہو اور وہ بھی غیر موثر تو پھر یہ ’کولہو کے بیل‘ کی طرح کا دائروں کا سفر تو ہے جو صرف تسکین پہنچاتا ہے مگر منزل تک پہنچنا تو ہمیشہ کے لیے ایک خواب ہی رہے گا۔

لہٰذا ضروری ہے کہ مسلسل، مربوط اور موثر انداز میں ایسی دعوتی سرگرمیوں کے انعقاد پر توجہ دی جائے کہ ایک جانب تو اپنی اصل دعوت کو اپنی اصل اور موثر انداز میں غالب اکثریت تک پہنچائی جائے اور دوسری جانب ایک بڑی تعداد کو ’ایجوکیٹ‘ بھی کیا جا سکے اور وہ سمجھ پائیں کہ اصلاح معاشرہ اور اسلامی نظام کا قیام ان کی ذمہ داری اور ایک ناگزیر ضرورت ہے۔

سید مودودیؒ نے اس جانب یوں متوجہ کیا ہے کہ ”اصلاح معاشرہ سے اگر آپ کی مراد معاشرے کو اسلامی نظام زندگی قائم کرنے کے لیے تیار کرنا ہے تو ووٹر کو صحیح انتخابات کے لیے تیار کرنا اس کے دائرہ عمل سے خارج کیسے ہو سکتا ہے؟ اور یہ کام کیے بغیر کس طرح ممکن ہے کہ آپ کا معاشرہ کبھی فاسد قیادتوں کو ہٹا کر کوئی صالح قیادت برپا کرنے کے قابل ہو سکے؟

آپ کو اس کے لیے ووٹر کی اخلاقی قدریں بدلنی ہوں گی۔
اسے اسلامی نظام سے روشناس کرانا ہو گا۔
اس میں اسلامی نظام کی طلب پیدا کرنی ہو گی۔
اس کو صالح اور غیر صالح کی تمیز دینی ہو گی۔
اس کو یہ احساس دلانا ہو گا کہ اس ملک کی بھلائی اور برائی کا ذمہ دار براہ راست وہ خود ہے۔

اس میں اتنی اخلاقی طاقت اور سمجھ بوجھ پیدا کرنی ہو گی کہ نہ دھن کے عوض اپنا ووٹ بیچے، نہ دھونس میں آ کر اپنے ضمیر کے خلاف کسی کو ووٹ دے۔ نہ دھوکہ دینے والوں کے دھوکے میں آئے اور نہ دھاندلیوں سے بد دل ہو کر گھر بیٹھا رہے ”

بس خلاصے کے طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ مروجہ سیاسی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے اس نظام کی تبدیلی کے لیے اس کے مروجہ تقاضوں کو مد نظر نہ رکھنا اور یا صرف نظر کرنا حقیقت کی دنیا میں آنکھیں بند کر کے سفر کرنے کے مترادف ہے۔ نظر آ رہا ہے کہ موجودہ سفر پاکیزہ بھی ہے اور نہایت منظم بھی لیکن ہے دائروں کے اندر، دائروں کا سفر تسکین تو پہنچاتا ہے لیکن منزل کو نہیں حاصل کر پاتا۔ معاشرے میں موجود ہر قسم کے خیر کو اکٹھا کر کے ساتھ لے کر چلنا تحریک کے موجودہ تنظیمی ساخت میں مشکل نظر آ رہا ہے اس لیے اپنے دامن کو وسعت دیے بغیر راستے مسدود ہوتے جائیں گے۔ بلاشبہ پارلیمانی طاقت کا حصول ناگزیر ہے مگر یہ یاد رکھنا بھی ”فرض عین“ ہے کہ بنیادی طور پر تحریک اسلامی حکومت الٰہیہ کے قیام یعنی اقامت دین کے لیے برپا کی گئی ایک دعوتی، فکری، نظریاتی اور انقلابی تحریک ہے محض سیاسی تبدیلی، موجودہ نظام کی اصلاح اور تعمیر و ترقی کا سفر اس کا مطلوب و مقصود ہرگز نہیں۔

سید منور حسن صاحب کے بقول ”جہاد کو اپنے روح کے ساتھ اپنے کلچر کا لازمی حصہ بنانا ہو گا یعنی ایک جانب اپنے کارکن کو ایمان و یقین، اخلاص، صبر، برداشت، رواداری اور تقویٰ کے دولت سے مالا مال کرانا ہو گا اور دوسری جانب معاشرے کے قلوب و اذہان کو تبدیل کر کے ہر قسم مزاحمت، برداشت اور قبولیت کے جذبے کو بیدار کرنا ہو گا۔“

موجودہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنا ایک پہلو ہے لیکن لائے ہوئے نئے نظام کا تحفظ کرنا بلکہ صحیح معنوں میں سہنا دوسرا لازمی پہلو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments