سوات کا امن اور خارجی سازشیں


موجودہ حالات میں جب سے تحریک انصاف کو وفاقی حکومت سے ووٹ آف نو کانفیڈنس کے ذریعے حکومت سے نکالا گیا تب سے تحریک انصاف اور پشتون تحفظ موومنٹ اپنے مضموم مقاصد کے حصول کے لئے ملک میں امن اور ملک کی ساکھ برباد کرنے کے لئے ہر حد تک گرنے کو تیار ہو چکے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات تحریک انصاف کی حکومت میں افغان طالبان کی ثالثی کے ذریعے شروع کیے گئے، جبکہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف اور اس کے رہنما بالخصوص مراد سعید، فوج مخالف پروپیگنڈا کے لئے سوات میں کسی بھی ذاتی رنجش پر ہونے والے واقع کو بھی طالبان سے منسلک کر کے کر رہے ہیں۔

سوات میں پہلا فوجی آپریشن 2007 میں ”آپریشن راہ حق“ کے نام سے شروع کیا گیا اور آخری دہشتگرد کے مارے جانے یا علاقے سے بھاگ جانے کے بعد مکمل کلیئرنس کے بعد مقامی پولیس اور انتظامیہ کے حوالے کیا گیا۔ خاص بات یہ ہے کہ پچھلے 9 سال سے سوات سمیت، تمام خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی تقریروں میں بیشتر دفع یہ دعوی کیا ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس سیاسی مداخلت سے آزاد ہو کر مثالی پولیس بن چکی ہے، مگر اب جب موقع آیا فرض نبھانے کا تو پختونخوا پولیس کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے اور تحریک انصاف پوائنٹ سکورنگ میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔

حال ہی میں سیلاب کے دنوں میں مینگورہ اور سوات کے علاقے سیلاب کی شدید زد میں آئے، جس سے ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر تحریک انصاف اور خیبر پختونخوا حکومت یا تحریک انصاف میں سے کوئی بھی اپنے علاقوں میں داد رسی کے لئے نظر نا آئے۔ جبکہ نام نہاد لیڈر مراد سعید عمران خان کے ساتھ اس دوران ہر سیاسی جلسے میں کھڑے نظر آئے۔ حتی کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے بھی یہ زحمت گوارا نہیں کہ آپ صوبے کہ چیف ایڈمنسٹریٹر ہیں تو آپ کا فرض ہے تباہی کا جائزہ لینے کے لئے ان علاقوں کا دورہ کرنا، مگر خیبر پختونخوا حکومت صرف اپنی سیاسی سرگرمیوں اور عمران خان کے پروٹوکول اور ہیلی کاپٹر فراہم کرنے میں مصروف نظر آئی۔

حال ہی میں خیبر پختونخوا کے حکومتی ملازم اساتذہ احتجاج کرتے ہوئے نظر آئے جو کہ اپنی تنخواہوں کا مطالبہ کر رہے تھے مگر حکومت نے ان کے جائز مطالبات جن سے ان کے گھر کا چولہا جلتا ہے ماننے کی بجائے قوم کے معماروں پر پولیس کے ذریعے تشدد کروایا اور مطالبات ماننے سے انکار کر دیا۔ ان تمام بحرانوں اور اپنی ناقص پالیسیوں، ناقص کارکردگی کو چھپانے کے لئے خیبر پختونخوا حکومت اب طالبان کی موجودگی کا پراپیگنڈہ کر کے اپنی ناقص کارکردگی سے توجہ ہٹانے کی خاطر پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف عمل ہے۔

تحریک انصاف اور پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے یہ کمپین چلائی گئی کہ اب ان علاقوں میں امن قائم ہو چکا ہے تو چیک پوسٹیں ختم ہو جانی چاہیں، فوج کو علاقے مقامی پولیس اور متعلقہ انتظامیہ کے حوالے کر کے واپس چلا جانا چاہیے اور 2014 میں سوات کو مقامی انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا تھا مگر اب خراب صورتحال ہونے کے بعد دوبارہ فوج پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ اب مقامی پولیس اور انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ان خطرات کو بہتر انداز میں سمجھتے ہیں تو ان خطرات کا سدباب بھی کریں اب کیوں دوبارہ علاقے میں فوج کو بلانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

پاک فوج ہر طرح سے ہر ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لئے تیار ہے اور موجودہ صورتحال پر بھی اچھے سے نظر رکھے ہوئے ہے عوام کو حوصلہ رکھنا چاہیے اور اپنی فوج پر اعتماد رکھنا چاہیے کسی بھی مشکل اور خطرناک صورتحال میں پاک فوج ہر ممکنہ مدد ہمیشہ کی طرح مہیا کرے گی۔ پاک فوج نے پاکستان اور خصوصی طور پر قبائلی علاقوں میں امن کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، پاک فوج کبھی بھی ملک میں دہشتگردوں کو دوبارہ ٹھکانے نہیں بنانے دی گی۔ اس عزم کا اعادہ سپاہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے دوران بھی کیا،

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ پاکستان زندہ باد، پاک فوج پائندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments