سلیکٹرز پر تنقید تو ہوگی


اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی کھلاڑی کے ساتھ سلیکٹر میدان میں اتر کر ان کا ہاتھ پکڑ کر نہیں کھیلتا وہ صرف اور صرف ان کی سلیکشن اور کوچنگ کر تا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کی کارکردگی پر اگر حرف آرا ہے تو سلیکٹر ان کے پرفارمنس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ سلیکٹر پر انگلی ضرور اٹھے گی کیونکہ ان کے سلیکٹڈ کھلاڑی کی پرفارمنس پر جو انگلی اٹھی ہے۔

دوسری جانب تماشائی جو میدان، گھروں اور دیگر مقامات پر اکٹھے تھے اور اس کھیل پر ساری توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے اپنے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کچھ اس طرح سے کیا کہ ساری کی ساری ٹیم کو ہٹانے اور ساتھ ہی ساتھ چیف سلیکٹر کے بھی ہٹانے سے کم پر راضی نہیں تھے۔

کپتان کی پرفارمنس سب سے اچھی ہونے چاہیے جو کہ نہیں ہیں اور کھیل کے بجائے خراب پرفارمنس کی وجہ سے گالم گلوچ پر اتر آئے جو کہ سپورٹس مین سپرٹ کے بالکل خلاف ہے اور ہر کھلاڑی کو عموماً اور کپتان کو خصوصاً اس رول کا پتہ ہونا چاہیے۔

لیکن پرفارمنس چیز ہی ایسی ہے کہ یہ کھلاڑی کو نفسیاتی اور اخلاقی طور پر مہا اڑان کے پر پرزے عطا کرتے ہیں بشرطیکہ یہ اچھی ہوں لیکن اگر خراب یا بری ہو تو یہ کھلاڑی کو پستی کے اتھاہ گہرائی میں گرا دیتا ہے جس کے بعد کھلاڑی سرے سے منظر سے ہی غائب ہو جاتا ہے اور یہ ہر کھلاڑی کے ساتھ ہوتا ہے جب ان پر بیڈ پیچ کا وقت آتا ہے۔ اور یہ بیڈ پیچ، یہ بیرن پیریڈ اور یہ کڑک ہونے کے عمل سے ہر کھلاڑی گزرتا ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کھلاڑی فن اور فن کاری کا ہنر بھی جانتا ہو یعنی جب تک اپنے کھیل میں اپنے ٹیکنیک کو درست نہیں کرتا ہر ٹیم کا مخالف کھلاڑی ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا رہے گا اور ان کو اگر کریز پر ہو تو مختلف ٹیکنیک سے آؤٹ کرتا رہے گا اور اگر فیلڈ میں ہو تو ان کے خلاف رنز کے انبار لگاتے رہیں گے۔

ویسے بھی اس بیٹ بال کے کھیل کو رام کرنے کے کرتا دھرتاؤں کو بگ تھری ہی چلاتے ہیں اور سب کچھ ان بگ تھری ہی کی مقصد اور منشا سے ہوتا ہے کیونکہ سب سے زیادہ وسائل ہی ان کے ہوتے ہیں تو یہ عام اصول ہے کہ جو خرچہ کرتا ہے وہ ہی نمایاں ہوتا ہے اور جو متوسط ہوتا ہے وہ پس پردہ رہتا ہے خواہ ان کا نام، پرفارمنس یا پہچان بہ ظاہر کتنا ہی کیوں نہ ہو۔

ویسے بیٹ بال کا کھیل ہی ایسا ہے کہ یہ کسی بھی جگہ کسی بھی وقت اور کسی بھی طریقے سے کھیلا جا سکتا ہے بس پچ نما جگہ ہو، بال ہو اور وکٹ لگانے کے لئے کوئی چیز ہو، بھلے بندے زیادہ ہو یا نہ بس ایک پھینکنے اور دوسرا مارنے والا ہو۔

لیکن کیا کریں یہ بیٹ بال کا کھیل ہی ایسا ہے کہ اس میں وکٹ بیٹ یا بال اکثر کسی ایک بندے کا ہی ہوتا ہے یہ سب کی مشترکہ نہیں ہوتا ہے اور یہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہوتا ہے جن ان کی ملکیت کا دعویٰ دار ہوتا ہے۔ اور ان کی مرضی اور فیصلوں کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے ورنہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی بھی فیصلہ کرنے کے بعد وہ بال بیٹ اور وکٹیں اٹھا کر چلتا بن کر کھیل کو ختم کر سکتا ہے۔

یہ گلیوں کے کھیل کی باتیں کیوں دھرائی جاتی ہے اس لیے کہ ہمارے ہاں کرکٹ بہت مقبول کھیل ہے اور سیاست سے لے کر معیشت تک یہ عوام پراثر انداز ہے۔

اور اس کھیل کے تمام اشارے کنائے اصطلاحات اور اصول بچے سے لے کر بوڑھے تک جانتے ہیں۔

پچ سے لے کر شاٹ پچ، یارکر سے لے کر فل ٹاس، فل لینتھ سے لے کر پیس چینج، نو بال سے لے کر وائیڈ بال، آف سے لے کر لگ تک۔

اس طرح فاسٹ، سپن آف اور لگ سپن شارلٹ لگ کٹ پل، ہٹ، سکوپ، سویپ، لانگ ان میڈ وکٹ، سکوائر لگ گلی سلپ شارٹ لگ اور سلی پوائنٹ۔

اور ایک یہ سلی پوائنٹ ہی ہوتا ہے کہ جس میں وکٹ کیپر کے بعد فیلڈ میں یہ فیلڈر بھی ہیلمٹ سے لے کر سیف گارڈ تک گارڈڈ ہوتا ہے اور ہر شاٹ کے ساتھ ان کو منہ پھیرنا پڑتا ہے اور ادھر عموماً وہی کھلاڑی کھڑا کیا جاتا ہے جو ڈیبیو کرتا ہے اور اس کھیل میں آئے دن ڈیبیو ہوتا رہتا ہے اور نئے کھلاڑی آتے رہتے ہیں اور یہ کھیل جاری و ساری رہتا ہے لیکن اس کھیل کے تمام اشاروں کنایوں اور اصطلاحات میں جو اہمیت ایمپائر اور ان کے انگلی اٹھنے کو حاصل ہے وہ کسی اور اشارے کنائے یا اصطلاح کو نصیب نہیں ہوئی کیونکہ سب سے زیادہ اسی اشارے سے ہی تماشائی جوش جذبے اور جنون میں آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments