مالیاتی اور سیاسی بحران: بڑھ گئی اور دور یہ منزل


ملک کے حالات مخدوش سے مخدوش تر ہوتے جا رہے ہیں، سیاسی گہما گہمی، افراتفری، دانائی کی کمی، فہم و فراست کے عدم استعمال کا نتیجہ دیوالیہ کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا لیکن ہماری قوم میں ایسے ہونہار اب بھی موجود ہیں جو موقع دیے جانے پر حالات کو سنبھالا دینے میں معاونت کار ثابت ہوسکتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں من حیث القوم اس تگ و دو میں حصہ لینا پڑے گا۔

پاکستان کو رواں مالی سال میں 34 بلین ڈالر کی ضرورت تھی جس میں مالی سال کے بقیہ حصے میں کم سے کم 23 بلین ڈالر درکار ہیں جس کا ان حالات میں کوئی ذریعہ، راستہ یا وسیلہ نظر نہیں آتا کہ آخر یہ 23 بلین ڈالر کہاں سے آئیں گے۔

اس وقت ملک معاشی ابتری کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن سیاسی بھونچال اور عدم استحکام کی وجہ سے کوئی غیر ملکی یہاں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں، تارکین وطن نے بھی ترسیلات زر کو ترک کرنا شروع کر دیا ہے۔

آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنا مشکل ہو چکا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ کئی مغربی ممالک اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر کرنے سے اجتناب کا کہہ رہے ہیں تو ایسے میں آس و امید کا کم ہونا ایک قدرتی امر ہے۔

پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضے بام عروج کو چھوتے ہوئے 262 بلین ڈالرز کی حد بھی عبور کرچکے ہیں اور ظاہر ہے یہ صورتحال ایک خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں مگر سیاستدان ہیں کہ ان کے کانوں پر جون تک نہیں رینگتی۔

حالات تو اس بات کے متقاضی ہیں کہ یہ سیاسی عمائدین و قائدین اپنی مخاصمت اور اختلاف پس پشت ڈال کر سر جوڑ کر بیٹھیں وگرنہ اگر یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا تو یہ اشرافیہ اور سیاستدان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور عوام گھن کی طرح گیہوں میں پس جائے گی۔

پاکستان تحریک انصاف اور مقتدر قوتوں کے پس پردہ رابطے کسی سے پوشیدہ نہیں، اسد عمر، پرویز خٹک اور فواد چوہدری معاملات کو حل کرنے کے لئے مقتدر اداروں سے رابطے میں ہیں جس سے امید کی کرن تو سامنے آئی ہے مگر اب تک کی جانے والی کوششیں لاحاصل رہی ہیں۔

پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی جس طرح اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہیں اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر کوئی افہام و تفہیم کا راستہ نہ نکلا تو دونوں فریقین میں ہونے والا تصادم ناقابل تلافی نقصان دے سکتا ہے۔

ایسی صورتحال میں جب ملکی معاملات ہر سمت خطرناک حد تک دگرگوں ہیں، چاہے ہماری گورننس کے حالات ہوں یا معیشت، اندرونی مسائل ہوں یا بیرونی دباؤ ان تمام چیزوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے معاملات کو سنبھالنا کٹھن دکھائی دیتا ہے۔

پی ٹی آئی کے طرف سے 2 مقاصد نظر آتے ہیں، ایک تو یہ کہ تحریک انصاف آئندہ انتخابات کے لئے اپنی مہم کا آغاز کرچکی ہے اور لوگوں کو جمع کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ دوسرا مقصد یوں لگتا ہے کہ عسکری قیادت کی بڑی تعیناتی اور اس کے ممکنہ مضمرات کے سبب پی ٹی آئی اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے عوام کے سمندر کا دباؤ بھی دکھانا چاہتی ہے۔ اس کا کتنا فائدہ ہو گا یہ اندازہ کرنا فی الوقت مشکل ہے۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کے پیغامات پر نظر ڈالیں تو واضح دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان اس اہم تعیناتی میں اپنا دباؤ ڈالنے کے خواہاں تھے اور اب آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے جو چہ مگوئیاں چل رہی ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے حد تک بھی جا سکتی ہے۔

یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ اسلام آباد میں بڑی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے سے مڈبھیڑ کے خدشات بڑھ سکتے ہیں جس سے ہماری منزل کوسوں دور ہو سکتی ہے۔

الزام تراشی کی اوچھی سیاست اور چور چور کی صداؤں کی گونج سے تو لگتا ہے بقول شاعر:
بڑھ گئی اور دور یہ منزل
چلتے چلتے یہ کیا ہوا لوگو
راہزن راہزن سے مل بیٹھے
فاصلہ اور بڑھ گیا لوگو۔

ڈاکٹر جمیل احمد خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر جمیل احمد خان

سابق سفیر، سینئر تجزیہ کار، ماہر بین الاقوامی امور

dr-jamil-ahmed-khan has 6 posts and counting.See all posts by dr-jamil-ahmed-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments