کیا فلسفے کی موت واقع ہوچکی ہے؟ (پارٹ 5)۔


بات فلسفہ، سائنس اور تصوف سے شروع ہوتے ہوئے آسمانی مذاہب تک پہنچ چکی ہے۔ جس طرح سابقہ علوم کو تینوں ذرائع علم سے پرکھا اسی طرح آسمانی مذاہب کو بھی پرکھا جائے گا۔ اگر کسی ایک جگہ بھی تضاد پایا گیا تو فلسفہ اور تصوف کی طرح اس کو بھی رد کر کے آگے بڑھا جائے گا۔ سائنس کیونکہ (کیسے ) تک رہتی ہے اس لئے اس کو خاص حد تک قبول کیا جاسکتا ہے۔ آسمانی مذاہب کا مواد اس وقت ہمارے پاس کتابوں کی صورت میں موجود ہے۔ آسمانی مذاہب کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وضاحت کروں گا۔

ایک حصہ قرآن مجید اور دوسرا باقی تمام مذاہب۔ میرے نزدیک قرآن مجید کی ایک منفرد حیثیت ہے۔ دنیا میں اس وقت بڑے مذاہب کی کتابیں درج ذیل ہیں۔ ہندو مت کی اہم کتابوں میں چار وید، اپنیشد، بھگوت گیتا اور آگم شامل ہیں۔ اسی طرح بائبل، تورات، زبور، انجیل۔ سکھوں کی مذہبی کتاب شری آدی گرنتھ یا گیان گرو گرنتھ صاحب ہے۔ عام تور پر سکھوں کے 10 ستگر مانے جاتے ہیں، لیکن سکھوں کی مذہبی کتاب میں 6 رہنماؤں کے ساتھ ساتھ 30 بھگتوں کی بانی ہے، جن کی عمومی تعلیمات کو سکھ راستہ پر چلنے کے لئے اہم مانا جاتا ہے۔

سکھوں کے مذہبی مقام کو گردوارہ کہتے ہیں۔ مذاہب کی مزید تفصیل کرنے سے پہلے ان کی سند کا جائزہ لیا جائے گا۔ سب سے پہلے دو بنیادی سوالات اٹھتے ہیں کہ آیا کہ یہ تمام کتابیں اپنی اصل حالت میں موجود ہیں؟ جس شخصیت پر کتابیں نازل ہوئیں کیا ان پر واقعی وحی کا نزول ہوا یا اہل تصوف کی طرح مراقبہ و مشاہدہ کیا؟ کیونکہ اگر ان مذاہب میں بھی اگر وہی طریقہ اپنایا گیا ہو جو اہل تصوف اپناتے ہیں تو تصوف اور آسمانی مذاہب کے درمیان فرق ختم ہو جائے گا۔

دوسری جانب اگر کتابوں کے اصل نسخے ہم تک نہیں پہنچے تو عقلی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت قرآن مجید کے علاوہ تمام مذاہب کی کتابوں کے ایک سے زیادہ نسخے موجود ہیں تو اصل نسخہ کون سا ہے؟ جو کچھ کتابوں میں لکھا ہے اس پر بات کرنے سے پہلے کتاب کی سند پر تنقیدی جائزہ ضروری ہے۔ اگر کتاب کی سند پر سوال اٹھتا ہے تو اس پر جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اپنی اصل کے اعتبار سے بے معنی ہو گا۔ کیونکہ کتاب پر پہلا تضاد یہی ہے۔

قرآن مجید کے علاوہ تمام مذاہب کا اس وقت ایک سے زیادہ نسخے ہیں۔ شروع میں ہی پہلا تضاد سامنے آ گیا ہے۔ اب ہم صرف اور صرف قرآن مجید کا جائزہ لیں گے کیونکہ باقی مذاہب کی کتابیں سند کے اعتبار سے ناقص پائی گئی ہیں۔ قرآن مجید کے حوالے سے، قرآن مجید کے ناقدین تین سوال اٹھاتے ہیں۔ اس میں کچھ غیر مسلم اور کچھ مغربی دانشور بھی ہیں جنہوں نے ایک پورا تھیسس ڈویلپ کیا ہے۔ قرآن مجید کی سند پر تین بنیادی سوال درج ذیل ہیں۔

پہلا سوال ہے کہ قرآن مجید جس شخصیت پر نازل ہوا وہ مراقبہ و مشاہدہ یا علم و ہنر سے خودساختہ قائم کردہ ہے۔ کیونکہ پرانے زمانے میں حکومت قائم کرنا ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ 1928 سے پہلے فاتحین کا دور تھا۔ قرآن مجید کے غیر مسلم ناقدین کا کہنا ہے کہ کیونکہ اس وقت محمد احمد نامی شخصیت کے پاس عرب میں حکومت قائم کرنے کے لئے کوئی طاقت یا فوج نہیں تھی اس وجہ سے خود پر نبوت کا دعویٰ کر کے گویا ایک مذہب کارڈ کو استعمال کیا گیا تاکہ نبوت کی خبر سنتے ہوئے لوگ ان کے پیروکار بن جائیں۔ جس طرح کسی زمانے میں یورپ میں ایک پوپ کی حکومت ہوا کرتی تھی اور اس کو حکومت الٰہیہ کا درجہ حاصل تھا۔

دوسری تنقید یہ ہے کہ کیا قرآن مجید اپنی اصل حالت میں موجود ہے؟ اگر موجود ہے تو اس کا اصل نسخہ کہاں ہے؟ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر قرآن مجید مکمل ضابطہ حیات ہے تو سیاسی اور معاشی نظام کیوں نہیں بیان کرتا۔ مطلب آدھی بات بیان کی ہے اور آدھی حذف کرتا ہے۔ جہاں غلطی یا تضاد کا خدشہ ہے وہاں خاموشی برتی کہیں مستقبل میں تضاد کا خطرہ نہ منڈلائے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments