کیا قوم کے نصیب میں’میرے عزیز ہموطنو‘ باقی ہے؟


پنجاب اسمبلی توڑنے کی سمری بھیجنے کے بعد اب گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کے پاس شاید اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کروانے کی درخواست کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ تحریک انصاف ایک آدھ روز میں خیبر پختون خوا اسمبلی توڑنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ البتہ اسمبلیوں کے توڑنے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ اس حوالے سے عبوری حکومتوں کے قیام اور انتخابات کے شیڈول سے لے کر الیکشن کمیشن کے کردار اور پھر نتائج کے حوالے سے شبہات و الزامات کا وسیع میدا ن کھلا رہے گا۔

ان حالات میں کچھ اور کہا جاسکتا ہو یا نہ لیکن ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ آنے والے چند ماہ کے دوران پاکستان میں سیاسی بحران نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اس میں شدت پیدا ہونے کا امکان ہے۔ دو صوبوں میں انتخابات کے دوران دو ایسے فریقوں کے درمیان چلائی جانے والی انتخابی مہم کے دوران، جو ایک دوسرے سے بات کرنے اور شکل دیکھنے کے بھی روا دار نہیں ہیں، تصادم، الزام تراشی اور ہنگامہ آرائی کے کسی بھی امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قیاس کرنا ممکن نہیں ہے کہ اس صورت حال کو پیدا کرنے والے لیڈروں کے پیش نظر یہ معاملات نہ ہوں اور وہ اس قسم کی شدید سیاسی ہنگامہ آرائی کی مکمل تیاری کے لئے ذہن سازی نہ کئے بیٹھے ہوں۔ البتہ اس صورت میں یہ سوال ہر محب وطن پاکستانی کو ضرور پریشان کرے گا کہ کیا ان لیڈروں کو پاکستان کی بہبود اور اس کی مشکلات کا اندازہ بھی ہے اور کیا یہ واقعی انہیں حل کرنا چاہتے ہیں یا مسائل پر توجہ دینے کی بجائے پہلے ذاتی فتح کا پرچم بلند کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

عمران خان کسی بھی صورت جلد از جلد قومی اسمبلی فتح کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ تمام ’ریڈ لائینز‘ تباہ کرتے ہوئے فتحیاب لیڈر کے طور پر اسمبلی میں جائیں اور ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوکر دکھائیں۔ لیکن اس وقت جو سیاسی صورت حال موجود ہے، اس میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کا راستہ ہموار ہونے کے باوجود شہباز شریف قومی اسمبلی توڑنے کا اقدام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر تحریک انصاف دو صوبوں میں ہونے والے انتخابات کے بعد اپنی توقع کے مطابق وہاں ایک بار پھر حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو بھی گئی ، پھر بھی عمران خان کا ذاتی سیاسی ایجنڈا کسی طور کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ یعنی وزیر اعظم بننے کا راستہ ابھی کافی طویل ثابت ہوسکتا ہے۔

اور اگر واقعی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات منعقد ہوجاتے ہیں تو یہ امکان زیادہ قوی ہوجائے گا کہ وفاقی حکومت کسی طرح عام انتخابات یا قومی اسمبلی کے انتخابات مؤخرکرنے کا کوئی عذر تلاش کرلے۔ اس طرح عمران خان کے لئے وزیر اعظم بننے کی منزل مزید دور ہوسکتی ہے۔ اور وہ جن ریڈ لائنز کا حوالہ دے کر اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ حقیقی معنوں میں ان کے پاؤں کی زنجیر بنا دی جائیں۔ عمران خان کو اگر اپنا 2014 کا دھرنا اور نواز شریف کے بے بس حکومت کی صورت حال یاد ہو تو انہیں جاننا چاہئے کہ قومی اسمبلی کو ساتھ ملا کر اسٹبلشمنٹ کی طرف سے اٹھایا ہؤا سیاسی طوفان ٹالنے کے باوجود انہیں ایک ہی سال بعد پاناما پیپرز کی صورت میں ایک ایسی ناگہانی صورت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے وہ ساری زندگی کے لئے ملکی سیاست میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیے گئے۔ اس وقت نواز شریف سے بھی اندازوں کی کچھ غلطیاں ہوئی تھیں جن کی وجہ سے وہ اس حالت کو پہنچے۔ عمران خان سوچیں کہ کیا وہ بھی کوئی ایسی ہی غلطی کرنے پر اصرار تو نہیں کررہے۔

پھر بھی یہ سارے اندازے تو اس بنیاد پر قائم ہوں گے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے دعوؤں پر اعتبار کرتے ہوئے یہ مان لیا جائے کہ تحریک انصاف بہر صورت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات جیت جائے گی۔ بلکہ اتنی بھاری اکثریت سے واپس آئے گی کہ کم از کم مسلم لیگ (ن) کو پنجاب کی سیاست سے اور مولانا فضل الرحمان کو خیبر پختون خوا کی سیاست سے باہر کردے گی۔ اگر یہ امید پوری ہوتی ہے تو عمران خان کی حکمت عملی واقعی کامیاب ہوسکتی ہے کہ تحریک انصاف کی سربراہی میں وفاق سے سرکش دو صوبائی حکومتیں مرکزی حکومت کے لئے مسلسل مشکلات پیدا کرتی رہیں گی اور صوبوں میں اس کے اختیارات کو چیلنج کریں گی۔ لیکن سیاست امکانات کا کھیل ہے۔ اس کے بارے میں اندازے تو قائم کئے جاسکتے ہیں لیکن یقین سے کوئی بات کہنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہے کہ عمران خان واقعی صوبائی انتخابات میں اپنی ’بے پناہ‘ مقبولیت ثابت کردیں لیکن اگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اور اگر ان دو صوبوں کی حکومتیں کسی بھی وجہ سے ان کے ہاتھ سے نکل گئیں تو دھاندلی اور ریڈ لائن کا شور مچانے کے علاوہ ان کے پاس کیا چارہ ہوگا؟

امید کرنی چاہئے کہ سیاسی انقلاب برپا کرنے کے جوش میں مبتلا عمران خان نے ان امکانات پر بھی غور کیا ہوگا کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں شکست کی صورت میں وہ کیسے اپنی پارٹی کو سنبھالیں گے اور کس طرح خود اپنے دعوؤں کے مطابق اگر وہ اسّی نوے فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو وہ پھر نئی سیاسی حقیقت کا کیسے سامنا کریں گے۔ عمران خان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں وہ ہار گئے تو ماضی کی طرح دھاندلی اور بے ایمانی کا ایک نیا ہنگامہ کھڑا کرکے وہ کوئی سیاسی رعایت حاصل کرلیں گے تو اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک تو عوام اب نعروں اور بے مقصد احتجاج کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں ۔ دوسرے بار بار ایک ہی ہتھکنڈا سیاسی کامیابی کا راستہ ہموار نہیں کرتا۔ 2014 میں جب عمران خان نام نہاد انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج منظم کررہے تھے تو اسٹبلشمنٹ کے پراسرار ہاتھ ان کے ممد و معاون تھے ۔ 2018 کے جو انتخابات عمران خان جیت کر وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے تھے، اس فتح کی حقیقت کچھ عمران خان کے بیانات اور کچھ جنرل باجوہ کے انکشافات نے واضح کردی ہے۔ یہ سچ ہے کہ عمران خان کا ذاتی ووٹ بنک مستحکم ہے لیکن اس بات کا کوئی سائینٹیفک جائزہ موجود نہیں ہے کہ اس کی شرح کیا ہے اور کتنے فیصد ووٹ کتنی صوبائی نشستوں پر تحریک انصاف کی کامیابی کے لئے فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں۔

سب یہ بات مانتے ہیں کہ ملک بے حد مشکل صورت حال کا سامنا کررہا ہے۔ اس بات سے بھی کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ اس مشکل سے نکلنے کے لئے خواہ وہ معاشی مسائل کا انبار ہو یا دہشت گردی اور امن و امان کی صورت حال ہو، ملک میں سیاسی ہم آہنگی اور وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ پنجاب اسمبلی توڑنے کی سمری بھجوا کر عمران خان نے اپنی سیاست کا ترپ کا پتہ استعمال کرلیا ہے۔ اب اس فیصلے کے نتائج سے ہی ان کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ ہوگا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر اسمبلیاں توڑنے اور شدید دباؤ میں آئی ہوئی معیشت پر انتخابی مہم جوئی اور اخراجات کا بار ڈال کر ملک میں جاری بحران کو بھی شدید کیا گیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران دہشت گرد گروہوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔ خاص طور سے ٹی ٹی پی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو براہ راست نشانہ بنانے کا اعلان کرچکی ہے۔ اگر انتخابی مہم کے دوران اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی تو صورت حال شاید کسی بھی سیاسی حکومت یا قوت کے قابو میں نہیں رہے گی۔

جس ملک میں امن اور عوامی زندگیوں کو مسلسل خطرہ لاحق ہو ، وہاں بیرونی سرمایہ کاری کا امکان بھی کم ہوجاتا ہے۔ پاکستان کی معاشی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک دہشت گردی کے ابھرتے ہوئے خطرے پر قابو نہ پایا جائے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ سرعت سے کروائے جانے والے انتخابات میں یہ مقصد کس حد تک حاصل کیا جاسکے گا۔ تاہم پنجاب اسمبلی توڑنے کی سمری بھیجنے کے بعد اسٹاک ایکسچینج میں مندی، یہ اشارہ تو ضرور دے رہی ہے کہ سرمایہ دار مسلسل پریشان رہیں گے اور منڈیوں میں مندی کا رجحان غالب رہے گا۔

سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے دور حکومت میں سیاسی انجینئرنگ کی صورت حال نے فوج کی شہرت کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ سیاسی لیڈروں کے پاس سنہرا موقع تھا کہ وہ باہمی اشتراک و تعاون سے فوج کو ہمیشہ کے لئے ’غیر سیاسی‘ رہنے اور اپنے آئینی کردار تک محدود ہونے پر مجبور کرسکتے۔ البتہ سیاسی قوتوں نے باہمی کشمکش کو عملی جنگ کی صورت میں تبدیل کرکے درحقیقت فوج اور عدلیہ کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں۔

آنے والے دنوں یا مہینوں میں پیدا ہونے والے حالات میں اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکے گا کہ کسی جنرل کو ایک بار پھر ’میرے عزیز ہموطنو‘ والی تقریر کسی بوسیدہ الماری میں سے نکالنا پڑے۔ ایسے میں سیاست دانوں کی انا اور احمقانہ فیصلوں کی قیمت بہر صورت عوام اور جمہوریت ہی کو ادا کرنا پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments