کراچی کا مئیر بھی حافظ قرآن ہو گا


شاید پیپلز پارٹی کو اب بھی یقین ہے کہ کراچی کی مئیر شپ اس کو مل جائے گی اور وہ کسی پرانے خواب کی تعبیر کو پا لیں گے، جو کہ سندھ کی مخصوص لسانی سیاست میں مشکل ہے۔ تازہ بلدیاتی الیکشن سنہ 2001 1 ور 2002 کے الیکشن کا ایکشن ری پلے سے ملتا جلتا بلدیاتی الیکشن ہی لگتا ہے۔ ان الیکشن کے نتائج کو میں کسی سازشی نظریہ سے جوڑنا نہیں چاہتا ہوں بلکہ خاص واقعات کے تسلسل کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔

جنرل مشرف کے دور کے آغاز میں بہت دھوم دھام سے نیا بلدیاتی نظام لایا گیا جس کا نچوڑ یہ پیش کیا گیا کہ یہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا ایک انقلابی پروگرام ہے، اس کے لئے بہت ساری این جی اوز، سماجی تنظیموں، اور مذہبی سیاسی جماعتوں کو متحرک بھی کیا گیا۔ بائیں بازو کے گروپ بھی جنرل نقوی کے ذریعے متحرک کیے گئے جو کہ مشرف کو لبرل اور روشن خیال ثابت کرنے پر تلے رہتے تھے۔

ان بلدیاتی الیکشن کا سندھ میں ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا تھا یا کہا جاتا ہے کہ ایسا اعلان کرایا گیا تھا۔ (یہ اعلان بھی لندن سے الطاف حسین نے کیا تھا جب ان کی تصاویر مساجد کے فرش، پتوں اور سبزیوں پر آتی رہتی تھیں ) ۔ ایسے اعلان کا پچھتاوا دو سال بعد الطاف حسین کو نئے منتخب کونسلروں کی کارکردگی اور جماعت اسلامی کی ایم کیو ایم کے علاقوں میں پذیرائی کے بعد ہوا پھر ایک دن وہ لندن سے بہت غصے کے عالم میں دھاڑے اور کہا کہ بہت سیاست ہو گئی ہے لہذا سیاست بند کر کے جنرل مشرف کی حمایت کی جائے پھر مشرف حکومت میں فوری طور پر ان کے وفاق اور صوبہ سندھ میں وزراء شامل کر دیے گئے۔

خیر بات چل رہی تھی 2001 کے بلدیاتی الیکشن میں جب کراچی کے ناظم اعلٰی (میئر شپ) کے انتخابات کا مرحلہ آیا۔ بلدیاتی الیکشن میں آج کی طرح پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دو بڑی جماعتوں کے ساتھ ابھرنا کر آئی تھیں۔ ناظم اعلٰی کے لئے کونسلروں نے انتخاب کرنا تھا جس کے لئے جیتنے والے امیدوار کو کل ووٹوں کا 55 فیصد ووٹ لینا ہوتا تھا اور مطلوبہ نمبر نہ لینے کی صورت میں پھر پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والوں کے درمیان سادہ اکثریت کی بنا جیتنے والا ناظم اعلٰی منتخب قرار دیے جانے کا اعلان ہوتا۔ دیگر کے علاوہ پیپلز پارٹی کی طرف سے تاج حیدر اور جماعت اسلامی کی طرف سے نعمت اللہ خان امیدوار تھے۔ پہلے راؤنڈ میں تاج حیدر فاتح بنے مگر 55 فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکے لہذا دوسرے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا جس میں نعمت اللہ اور تاج حیدر مد مقابل تھے۔

لیکن دوسرے مرحلے کے آغاز سے قبل کراچی کے کور کمانڈر نے دونوں امیدواروں سے علیحدہ علیحدہ انٹرویو لئے۔ ظاہر سی بات ہے ان انٹرویوز کے دوران کراچی میں رینجرز اور فوج کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے کی بات کی گئی تھی۔ انٹرویو کے بعد تاج حیدر کو محسوس ہو گیا کہ کراچی کو جماعت اسلامی کے حوالے کیا جا رہا ہے جبکہ انٹرویو کی شام کو ہی جب نعمت اللہ خان جماعت کے دفتر ادارہ نور حق پہنچے تو مسکرا رہے تھے جبکہ نعمت اللہ خان کم کم ہی مسکراتے تھے۔ بہر حال انتخاب کے نتیجے میں نعمت اللہ خان منتخب ہو گئے اور کونسلروں کی اکثریت نے انہیں کامیاب کر دیا۔

تازہ بلدیاتی الیکشن میں بھی پہلے الطاف حسین نے بائیکاٹ کا اعلان کیا، پھر کراچی میں موجود ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو راتوں رات اکٹھا کیا گیا، گورنر سندھ تو اتنے متحرک ہوئے کہ انہیں اپنے عہدے کا بھی پاس نہ رہا بس سر پر ایم کیو ایم پٹی باندھنے کی دیر تھی۔ مگر۔ اچانک ”کہیں“ سے کچھ خفیہ خفیہ ہوا۔ پھر دھڑلے سے حافظ نعیم الرحمٰن منظر عام پر آ گئے اور بات بے بات پر دھمکیاں بھی دینے لگ گئے کہ کچھ ایم کیو ایم کا سا ذائقہ بھی رکھا جائے۔ اب یہ طے ہوا ہو گا کہ کراچی کا مئیر بھی حافظ قرآن ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کو کراچی کا مئیر نہ بنانے کی وجہ بھی شاید یہ ہو کہ فوجی حکومتوں میں بڑی مشکل سے سندھ کو دو لسانی صوبہ بنایا گیا ہے اس کا یہ رنگ ختم کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہوگی۔

ختم شد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments