سیاستدان یا سیاسی گدھ


75 سال سے اقتدار کے لیے لڑتے مرتے ان سیاستدانوں کا دال روٹی کے لالچ میں عوام کو کچل کر ذاتی مفادات کی رسہ کشی کا کھیل جاری ہے۔ اس لالچ کو عوامی مفاد کا ٹیگ لگا کر بڑی ہوشیاری سے بیچا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان پچھتر برسوں میں شطرنج کی بازی چاہے کوئی بھی جیتا ہو، کیا اس سے عوام کے مسائل کم ہوئے؟ بنیادی ضروریات، جس میں عزت سے دو وقت کی روٹی، سستی اور معیاری تعلیم، صحت کی بنیادی سہولتیں عوام تک پہنچائی گئیں؟

لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال تسلی بخش ہے؟ یقیناً جواب ہو گا نہیں۔ اور اس کی وجہ صرف اور صرف سیاستدان ہیں ان سیاستدانوں کی کم ظرفی کا تو یہ عالم ہے کہ ایک سیاسی پارٹی ہی دوسری سیاسی پارٹی کو مدت پوری نہیں کرنے دیتی تو کسی کے دور حکومت میں پچھلی حکومتوں کی بری کارکردگی کے رونے دھونے ہی تمام نہ ہوئے اور کسی نے سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا، حالانکہ ان کو برسر اقتدار لانے پر اسی اسٹیبلشمنٹ کے چرن بھی چومنے والے یہی سیاستدان تھے۔

عوام کے کندھوں پر شطرنج کی بساط سجانے والے اپنے اپنے کھیل میں مگن ہیں، نہ کسی کو احساس ہے کہ زرعی ملک میں آٹا نایاب ہو چکا ہے اور نہ کسی کو فکر ہے کہ آٹے دال کا بھاؤ کیا ہے۔ عوام کے لیے ہر گزرتا دن مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ کھیل اتنا مزیدار ہے کہ اس کے نشے میں مدہوش و مشغول سیاستدان میرپور خاص کے گلشی کولہی کو بھی بھول گئے۔ وہی گلشی جو بچوں کی بھوک مٹانے سستا آٹا لینے گیا، جسے پانچ کلو آٹا تو مل گیا لیکن بدلے میں سانسیں چھین لی گئیں۔ بچے یتیم ہو گئے، لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ کھیل تو ابھی بھی جاری ہے۔ انا اور ضد کی آگ ہے جس میں آئے روز کوئی نہ کوئی اپنے حصے کا ایندھن جھونک رہا ہے۔

دو بڑے صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں، مرکز میں بغیر اپوزیشن کے ڈمی سیٹ اپ لگا دیا گیا ہے جہاں آئے روز وزیروں مشیروں کی بھرتیاں جاری ہیں۔ ایک طرف پی ڈی ایم دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مل بیٹھ کر سیاسی بحران کو حل کرنا چاہتی ہے مگر پاکستان تحریک انصاف تیار نہیں۔ اب جب پی ٹی آئی نے حامی بھری تو دس مہینوں سے اسپیکر کی دراز میں رکھے استعفے اچانک منظور کر لیے گئے اور ممبران کو فوری طور پر ڈی نوٹیفائی بھی کروا دیا گیا۔ نہ لفظوں کا مان رہا، نہ اپنے پارلیمانی عہدوں سے ایمانداری جیسا کوئی اصول دکھائی دیتا ہے۔

ایک طرف دوست ممالک سے امداد مانگی جا رہی ہے اور دوسری طرف تحلیل کی گئی اسمبلیوں میں دوبارہ انتخابات کی بازگشت ہے۔ جبکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ انتخابات کے لیے وسائل ناگزیر ہوتے ہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشی حالات سازگار نہیں تو تین چار سو حلقوں میں انتخابات کرانے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ لیکن عوام کے سامنے خالی خزانے کا ماتم جاری ہے۔ اس غیر یقینی کی صورتحال نے معاشی ڈھانچے کی گلی سڑی ہڈیاں بھی توڑنی مروڑنی شروع کردی ہیں۔

اسٹاک ایکسچینج میں مندی ہی مندی ہے، ڈالر ہاتھ نہیں آ رہا، سرمایہ دار بھاگنے پر تلا بیٹھا ہے، اسٹیٹ بینک میں پڑا پیسہ صفر گھٹا رہا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑ کر پردیس میں نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں، برآمدات میں خسارہ ہی خسارہ ہے لیکن سیاسی کشیدگی میں اضافہ کرنے والے ٹس سے مس ہی نہیں ہو رہے۔

ہر طرف دھند ہی دھند ہے، کہیں سے کوئی ایسا راستہ نہیں دکھائی دے رہا جہاں چل کر اس بحران کو ختم کیا جائے۔ عام انتخابات کی طرف پی ڈی ایم جانے کو تیار نہیں حالانکہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیکھنے کے بعد اب یہ فیصلہ کسی حد تک بڑے اتحادی پیپلز پارٹی کے لیے قابل قبول بھی ہو سکتا ہے لیکن وہاں بھی رویہ سرد ہی ہے۔ کوئی ایک زیرک سیاستدان آگے بڑھ کر ان معاملات کو سلجھانے کو تیار نہیں، ہاں الجھانے میں سبھی اپنا اپنا حصہ ڈالنے کو بے تاب ہیں۔ ان تمام تنازعات میں ملک کس جانب جا رہا ہے، عوام کی بدحالی کی کیا صورتحال ہے، ایک ایٹمی طاقت کا امیج کس حد تک منفی ہوئے جا رہا ہے، اس کی نہ پروا ہے نہ احساس۔ مجبوراً ملک کی بقا اور عوام کی بہتری کے نعرے لگ رہے ہیں۔

ان نعروں پر عملدرآمد دیوانے کا خواب سہی مگر عوام پھر بھی اپنے اپنے اکابرین کے پیچھے آنکھیں موندے چل رہے ہیں۔ اپنے ووٹ کی طاقت کو سیاستدانوں کے بیانیوں پر نچھاور کر کے انہیں بدمست ہاتھی بنانے میں ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ تبھی تو چال چلنے والے اپنی اپنی بازیاں لپیٹ اور باریاں سمیٹ رہے ہیں۔ قوم کے خادم قوم کے حاکم بنے بیٹھے ہیں اور ہم تماش بین جی حضوری میں مگن۔ لیکن ہم ہوتے کون ہیں اپنی مرضی سے اپنے خادم چننے والے؟ کہنے کو یہاں جمہوریت ہے لیکن درحقیقت یہ لڈو بھی حکومتیں بنانے اور گرانے والوں کے ”مقدس سنہری ورق“ میں مقید ہے جس کے قریب بھی ہمیں پھٹکنے کی اجازت نہیں۔

آپ پاکستان کے جس بھی ڈسٹرکٹ کے رہائشی ہیں ذرا اک نظر ان سیاسی خاندانوں پر بھی دوڑا لیں جو 1947 سے لے کر آج تک نسل در نسل اس بازار سیاست میں چلے آرہے ہیں۔ یہاں ان کے پٹھوروں کی نرسریاں جوان ہو رہی ہیں۔ آپ میرے ضلع قصور کی مثال لے لیجیے یہاں تین چار خاندانوں نے 1947 سے لے کر آج تلک سیاست کو بزنس بنا رکھا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقے اپنی فیملی میں ایسے بانٹے جاتے ہیں جیسے گیارہویں شریف کی کھیر بانٹی جاتی ہے

مزے کی بات ہے کہ ہمارے جیسے ملکوں میں نوکری حاصل کرنے کے لیے میرٹ ہے آپ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں میرٹ ہے۔ آپ انجینئر بننا چاہتے ہیں میرٹ ہے آپ لیکچرر بننا چاہتے ہیں میرٹ ہے۔ یہاں صرف ایک واحد شعبہ سیاست ہے جس کے لیے کوئی میرٹ نہیں۔ بس آپ رانا خاندان کے چشم و چراغ ہوں۔ آپ نکئی فیملی سے ہوں یا آپ ملک برادران میں سے ہوں۔ آپ یقیناً میرٹ پر پورا اتریں گے۔ آپ الیکشن جیتنے والے گھوڑے بنیں۔ سیاسی جماعتیں آپ کے لیے بازو پھیلائے کھڑی ہوں گی ۔

لیکن سیاست کے اس قبیح فعل میں آپ کا منافق ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ کا رنگ باز ہونا بہت ضروری ہے۔ اور اپنی سیاسی پارٹی کے لیڈران کا چاپلوسی کرتے رہنا ضروری ہے۔ نہیں تو مصطفی نواز کھو کھر کی طرح آپ بھی پارٹی سے نکال دیے جاؤ گے۔ پھر کوئی عمران خان پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے گا کہ جہانگیر ترین کہاں ہے۔ علیم خان کہاں ہے۔ چوہدری سرور کہاں ہے فوزیہ قصوری کہاں ہے۔ ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دے کر یہ وطن حاصل کیا اور ہمیں اس یقین پر سونپا تھا کہ ہم اس کی رکھوالی کریں گے، اسے عزت و استحکام بخشیں گے۔ مگر یہ کیا، ہم تو خود سہولت کار بنے اسے کمزور کرنے والوں کے بیانیوں پر لبیک کہتے شعور کو شکست اور جنون کو جیت کا معیار بنا رہے ہیں۔

عوام کے جذبات، جنون اور لاشعور پر سجی بساط پر شطرنج کا کھیل جاری ہے۔ یہ کھیل دماغ کا ہے اور کھیلنے والے بادشاہ کو شہ مات دینے کے لیے گھیریں گے، لپیٹیں گے اور خوب دھکیلیں گے۔ ہار بھی گئے تو جیت کھلاڑی کی اور نقصان صرف اور صرف اس اناڑی کا مقدر ہو گا جس نے اقتدار کا یہ کھیل کھیلنے کے لیے شاطر کھلاڑیوں کے لیے اپنا کندھا جھکایا اور ان سیاستدانوں کے آگے بندر کی طرح ناچتا رہا۔ ان کے نعرے لگاتا۔ کہ جیتے گا بھئی جیتے گا

شیر ہمارا جیتے ہیں۔ لیکن شیر جیتنے کے بعد بھیگی بلی بن گیا۔ شیر نے نو ماہ میں ملک کی چولیں تک ہلا کر رکھ دیں۔ سسٹم کرپٹ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ طاقتور ہے تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ سسٹم سے باہر کیوں نہیں نکل آتے۔

لیکن افسوس۔ کیسے اقتدار سے باہر نکلیں۔ اقتدار کا نشہ ہی نرالا ہے۔

شرافت علی رستم
Latest posts by شرافت علی رستم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments