معاشی اصلاح کے لئے حوصلہ مند فیصلوں کی ضرورت


وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر یقین دلایا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر لیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی سیاسی شہرت بھی داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہیں۔ کیوں کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط مان کر حکومت کو مہنگائی کی صورت میں شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنا ہو گا۔ خبر ہے کہ اب آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو آخری شکل دی جا رہی ہے اور جلد ہی محاصل میں اضافہ کے لئے منی بجٹ بھی پیش کیا جائے گا۔ منی بجٹ عام طور سے ٹیکسز میں اضافہ کے لئے لایا جاتا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے حکومت کو بڑی سیاسی قربانی دینی پڑے گی۔ عمران خان اور تحریک انصاف پہلے ہی اسے سیاسی معاملہ بنا کر حکومت کو نالائق اور ناکام ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وزیر اعظم خود بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کے حوالے سے بے اختیار رہے ہیں۔ انہوں نے دو ہفتے پہلے بھی اعلان کیا تھا کہ ان کی آئی ایم ایف کی سربراہ سے بات ہو گئی ہے اور نویں جائزہ کے لئے فنڈ کی ٹیم دو تین روز میں اسلام آباد آ جائے گی۔ اس اعلان پر کوئی خاص پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ دلچسپ بات البتہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نے یہ اعلان بھی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا جبکہ آج کا اعلان بھی نوجوانوں کے لئے قرض کی ایک اسکیم کا اعلان کرنے کے لئے منعقد ہونے والی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ حالانکہ ایسے بنیادی اہمیت کے فیصلوں پر کابینہ میں غور کے بعد ان کا اعلان ہونا چاہیے اور ایک بار وزیر اعظم کوئی بات کہہ دے تو اس پر عملدرآمد ہوتے دکھائی دینا چاہیے۔

شہباز شریف کی حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ بے اختیار ہیں اور تقریریں اور وعدے کرنے کے سوا کوئی فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نواز شریف نے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنوا کر کابینہ میں ’نائب وزیر اعظم‘ کے طور پر متعین کروایا تھا تاکہ حکومتی فیصلوں پر ان کا کنٹرول جاری رہے لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ اہم ترین مالی فیصلوں کے حوالے سے اسحاق ڈار، شہباز شریف سے مشورہ کرنے یا ماہرین کی رائے سننے کی بجائے یا تو من مانی کرتے ہیں یا نواز شریف کے کان بھر کر ان سے اپنے ناکام معاشی پالیسیوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آئی ایم ایف کے ساتھ نواں جائزہ مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان کو فوری طور سے 1.18 ارب ڈالر مل جائیں گے۔ زر مبادلہ کے لئے پاکستان کی ضروریات کے تناسب سے یہ کوئی زیادہ رقم نہیں ہے لیکن اب عالمی مالیاتی نظام کو اس طرز پر استوار کر لیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کسی ملک کو قرض دیتے ہوئے اس کی معیشت کا مکمل جائزہ لیتا ہے اور ایسی شرائط عائد کی جاتی ہیں جن سے ملکی معیشت میں استحکام پیدا ہو، قومی آمدنی میں اضافہ ہو اور حکومت جو قرض لینا چاہتی ہے، اسے ادا کرنے کے لئے قومی خزانہ کے وسائل میں اضافہ کیا جائے۔ البتہ اس میں قباحت یہ ہوتی ہے کہ ایسی شرائط پر عمل کرنے سے پاکستان جیسے ملک میں ان اضافی محاصل کا سارا بوجھ غریب اور متوسط طبقہ کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسی کو وزیر اعظم وہ سیاسی قیمت قرار دے رہے ہیں جو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی صورت میں انہیں دینا پڑے گی۔ اسحاق ڈار کا یہی خیال رہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط مان لی گئیں یعنی تیل و گیس کی قیمتوں پر سبسڈی ختم کردی گئی، ڈالر کو اپنی قیمت متعین کرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا اور چند سو ارب روپے کے نئے محاصل بھی عائد کیے گئے تو انتخابی سال میں یہ اقدامات حکومت وقت کے خلاف استعمال ہوں گے۔ عمران خان نے منفی پروپیگنڈا کے ذریعے پہلے ہی اتحادی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اس ماحول میں اگر محاصل میں اضافہ سے مہنگائی بے قابو ہوجاتی ہے تو مسلم لیگ (ن) کی رہی سہی مقبولیت بھی خاک میں مل جائے گی۔

تاہم اس معاملہ کے چند پہلوؤں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے ذریعے ہی دیگر عالمی ادارے اور ممالک بھی وسائل فراہم کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ حال ہی میں جینوا کانفرنس میں اگرچہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاری سے نمٹنے کے لئے دس ارب ڈالر سے زائد وسائل فراہم کرنے کے وعدے کیے گئے ہیں لیکن ان کی ادائیگی بھی اسی صورت میں شروع ہوگی اگر آئی ایم ایف جیسا ادارہ پاکستان میں معاشی شفافیت کی ضمانت فراہم کرے گا۔ یہ ضمانت اسی صورت میں دی جائے گی اگر حکومت معاشی بے اعتدالی کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب اقدامات پر راضی ہو جائے۔ قارئین نے نوٹ کیا ہو گا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تعطل کا شکار ہونے کی وجہ سے عالمی بنک نے بھی پاکستان کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر کی ادائیگی کو مؤخر کر دیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب جیسے دوست ممالک بھی معاشی اصلاحات کی ضمانت کے بغیر امداد دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ان اداروں یا ممالک کو یہ ضمانت آئی ایم ایف کے ریویو اور اس کی شرائط کے نفاذ کی صورت ہی میں حاصل ہوتی ہے۔ تب ہی قرض دینے والوں کو یقین ہونے لگتا ہے کہ پاکستان اپنی معاشی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل ہو سکے گا اور ان کا سرمایہ واپس مل سکے گا۔

اس کے برعکس اسحاق ڈار نے گزشتہ چند ماہ ان کوششوں پر صرف کیے ہیں کہ کسی طرح آئی ایم ایف کو سیلاب کی صورت حال سے مرعوب کر کے کچھ مراعات لے لی جائیں۔ حیرت ہے دہائیوں تک ملکی وزارت خزانہ کی سربراہی کرنے کے باوجود اسحاق ڈار ابھی تک یہ باور کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں کہ آئی ایم ایف کوئی فلاحی ادارہ نہیں ہے۔ یہ ادارہ اہم اور مالدار ممالک کے سرمایہ کو ذمہ داری سے خالصتاً سرمایہ دارانہ ذہنیت سے فراہم کرتا ہے۔ یعنی جب تک اسے کسی معیشت کی بحالی اور اس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا یقین نہ ہو، وہ سرمایہ مہیا نہیں کرتا۔ اب تو عرب ممالک بھی اسی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔ یہی اس وقت پاکستان میں ڈالر کی قلت اور معاشی افراتفری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

اسحاق ڈار کی غلط حکمت عملی اور شہباز شریف کی کمزوری کی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ نواں جائزہ تین ماہ سے تعطل کا شکار ہے۔ اگر حساب لگایا جائے تو اس تعطل سے ملکی معیشت کو پہنچنے والا نقصان اس صورت حال سے کہیں زیادہ ہے جو آئی ایم ایف کی شرائط کو بروقت مان لینے سے دیکھنے میں آتی۔ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے ایک ایسی جنگ جیتنے کی ناکام کوشش کی ہے جس میں ان کے ہاتھ میں کوئی موثر ہتھیار بھی نہیں ہے۔ ایسے میں غیر ضروری ضد کی بجائے آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کا فیصلہ کئی ماہ پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ اس سے کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوتا کہ ملکی معیشت کے بارے میں منفی قیاس آرائیوں کا سلسلہ دراز نہ ہوتا اور عمران خان کو بار بار یہ اعلان کرنے کا حوصلہ بھی نہ ہوتا کہ ملک کسی بھی وقت ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔

یہ درست ہے کہ مشکل معاشی فیصلوں کی قیمت عام لوگوں کو ادا کرنا پڑتی ہے اور حکومت وقت کی مقبولیت داؤ پر لگتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد صرف ایک خوف کی وجہ سے لائی گئی تھی کہ وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لاکر مخالف سیاسی عناصر کی زندگی اجیرن کر دیں گے۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) کو بخوبی یہ احساس ہونا چاہیے تھا کہ کوئی بھی جنرل آرمی چیف بننے کے بعد اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اسے کس نے اس عہدہ پر مقرر کیا تھا بلکہ اس کے پیش نظر فوج کے مفادات اور اپنے ساتھیوں کی خواہشات ہوتی ہیں۔ اس صورت میں تو کوئی بھی آرمی چیف آتا، اگر عمران خان کی معاشی پالیسیاں قومی خزانے کے لئے خسارہ کا سبب ہوتیں تو ایسی حکومت کو اسٹبلشمنٹ کی حمایت ملنا مشکل ہوتا۔ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے بھی تو عمران خان کی معاشی ناکامی ہی کی وجہ سے ان سے سیاسی کنارہ کشی اختیار کی تھی۔

اتحادی جماعتیں عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے کی ضد کرنے کی بجائے اگر نئے انتخابات کا اعلان کرنے کا حوصلہ کر لیتیں تو ملک کو شاید موجودہ سیاسی و معاشی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ البتہ اگر یہ فیصلہ کر ہی لیا گیا تھا تو پھر اس کی قیمت ادا کرنے میں بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایک طرف یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ ہم نے قومی مفاد کے لئے سیاسی مفاد قربان کر دیا تو دوسری طرف معمولی سیاسی فائدے کے لئے اہم معاشی فیصلوں سے گریز کیا جاتا ہے۔ یہی شہباز شریف اور ان کی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔

آئی ایم ایف سے سینگ پھنسانے کی بجائے بہتر ہوتا کہ حکومت عوام کو ساری صورت حال کے بارے میں آگاہ کرتی۔ جو صلاحیت تحریک انصاف پر الزامات عائد کرنے پر ضائع کی جاتی رہی ہیں، انہیں عوام تک ملک کے حقیقی معاشی مسائل پہنچانے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اہم ہوتا کہ آئی ایم ایف کے مطالبے ماننے کے لئے بالواسطہ ٹیکس عائد کرنے کا پرانا فارمولا آزمانے کی بجائے ملک کے مالدار لوگوں کو براہ راست ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا۔ اگر ملک میں چند سو ارب پتی قومی خزانہ میں حصہ دے کر محض کروڑ پتی رہ جاتے تو عوام کو بھی احساس ہوتا کہ حکومت معاشی ترجیحات تبدیل کر رہی ہے اور سارا بوجھ محض غریبوں کی طرف منتقل کرنے کی حکمت عملی ترک کردی گئی ہے۔ شہباز شریف نعرے کی حد تک ضرور یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ملکی بہبود کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے لیکن عملی طور سے ملکی اشرافیہ اور دولت مند طبقہ سے کوئی قربانی لینے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا۔

معاشی ترجیحات میں تبدیلی کے لئے سب سے ا ہم زرعی شعبہ پر ٹیکس اور دفاعی اخراجات میں قابل قبول کمی ضروری ہے۔ ان دو اہم اقدامات کے بغیر ملک موجودہ مشکل مالی بحران سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ شہباز شریف یا عمران خان اگر انتخاب جیت کر ایک بار پھر اقتدار تک پہنچ بھی گئے تو بھی معاشی اصلاح کے انقلابی اور اہم فیصلے کیے بغیر ملک کو خوشحالی اور ترقی کی منزل کی طرف گامزن کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ کمی صرف نعرے لگانے اور الزامات عائد کرنے سے پوری نہیں ہو سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments