اے زندگی کتنے محاذوں پر لڑے گی؟
کتنے مہینوں سے ڈپریشن کا شکار غزالہ کا دماغ، مایوسی اور نا امیدی کے اندھیروں میں ڈوب رہا تھا جس سے گھر اور کام کی جگہ پر اس کی کارکردگی متاثر ہو رہی تھی۔ دن بدن حالات بدتر ہونے لگے تو خودکشی کا سوچنے لگی لیکن کوئی سہارا نظر نہیں آیا۔ اس پر طرہ یہ کہ گھر میں بیٹھا مرد (بھائی) کام کرنے یا گھر کی دیکھ بھال سے یکسر لاتعلقی کا اظہار کر رہا تھا اگر بات کرتی تو چیخنا چلانا شروع کر دیتا۔
غزالہ نے جب سے ہوش سنبھالا تھا زندگی سے جنگ کر رہی تھی۔ اس کی ماں ایک سادہ طبیعت، مذہبی رجحان کی مالک خاتون تھی جس نے ہر حال میں خاوند کی فرمانبرداری سیکھی تھی اور مرتے دم تک اسے برا نہیں کہا۔ غزالہ کے ڈپریشن کی ایک وجہ اس کا باپ تھا، جس نے (نو سال کی عمر میں ) اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ وہ اسے یہ کہ کر بلیک میل کرتا رہا کہ اگر غزالہ نے اس کی بات نہ مانی تو وہ اس کی ماں اور بھائیوں کو گھر سے نکال دے گا یا پھر مار دے گا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے کیسے معلوم ہے؟ ہمارے معاشرے میں ایسی کہانیاں بھری پڑی ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس نے آواز کیوں نہیں اٹھائی تو اس کی وجہ اس کے نام نہاد باپ کی مالی حیثیت تھی، وہ سب کی مالی مدد کرتا تھا، ایسے میں ایک بچی کی کون سنتا مثلاً کسی کے بچوں کی فیس دیتا تو کسی کو گھر بنا کر دیا، کسی کو روزگار دلواتا وغیرہ۔
اس نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور گھر چھوڑ کر ایک سہیلی کے ساتھ رہنے لگی۔ ماں پھر اسے منا کر گھر لے گئی۔ اب اس نے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا سوچ لیا، اس کی پڑھائی بری طرح سے متاثر ہو رہی تھی۔ اللہ اللہ کرے میٹرک کے امتحانات دیے، رزلٹ کی منتظر تھی کہ نانی کا انتقال ہو گیا۔ سب نانی کے گھر ہی تھے کہ اس نے صرف غزالہ کو گھر واپس چلنے کو کہا جب انکار کر دیا تو اس کے چھوٹا بھائی کو اپنے ساتھ لے گیا تھا جو اس کو بہت عزیز تھا اور جس کی وجہ سے وہ یہ سب برداشت کرتی رہی تھی کیونکہ اس کی ماں جب بھی میکے جاتی، بچے گھر ہی رہتے۔ اس کی ماں کئی مرتبہ اپنے میاں کے در پر اسے منانے گئی لیکن اس کی ایک ضد تھی کہ غزالہ اس سے معافی مانگے۔ زندگی کے اس طویل اور کٹھن دور میں اس نے کتنی صعوبتیں برداشت کیں، بیان سے باہر ہیں۔
اس کی ماں دن رات اپنے بچھڑے بیٹے کی یاد میں روتی رہتی۔ آخر اس نے اس شخص کا سامنا کرنے کی ٹھان لی کیونکہ اب وہ ایک مضبوط لڑکی بن چکی تھی۔ چہ کہ مردوں کے اس معاشرے میں ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ملا جس نے فائدہ اٹھانے کی اپنے سعی ناکام کوشش کی جب بات نہیں بنی رنگ اور کارکردگی کو نشانہ بنایا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس نے ایک انٹرنیشنل ادارے میں جب ملازمت کے لیے درخواست دی تو وہاں کام کرنے والے ایک شخص نے اسے دیکھ کر کہا کہ ”تمہیں یہ نوکری نہیں مل سکتی کیونکہ نہ تو تمہارا رنگ گورا ہے اور نہ ہی تم فیشن ایبل ہو“ ۔ بعد ازاں اسے خفت اٹھانا پڑی کیونکہ غزالہ کو ملازمت اپنی قابلیت کی وجہ سے مل گئی۔
وہ عید کے دن رات بھر کے سفر (یہ اردو اور انگریزی دونوں معنوں میں سفر تھا ) کے بعد اس کے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔ دروازہ اسی نے کھولا، وہ جو اس کی آواز سن کر کانپ جاتی تھی، آج سکون سے اسے ہٹاتی گھر کے اندر داخل ہوئی اور بھائی کا انتظار کر نے لگی جو موجود نہیں تھا۔ جب وہ بچھڑا تھا تو بہت کم عمر تھا، دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر بہت روئے۔ اگلے دن وہ اسے ماں سے ملوانے لے گئی تو کچھ لمحے ماں اسے پہچان نہیں سکی۔
کچھ سال پہلے اس نے ڈپریشن سے لڑتے لڑتے خودکشی کر لی۔ اس کے اس دینا سے اس طرح رخصت ہونے نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر یہ ڈپریشن کیا ہوتا ہے؟ اور وہ کیا محرکات ہیں جو ایک ہنستے بستے انسان کو مرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ڈپریشن کی وجوہات:
یہ ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے، خود کو بے بس اور کچھ نہ کر سکنے کے خود کو قابل سمجھنا کی تا دیر تک موجود کیفیت کا نام ڈپریشن ہے جو بہت سی بیماریوں کو جنم دیتا ہے اس کی دیگر علامات میں نیند کا نہ آنا، بھوک کا کم ہونا اور وزن گرنا، فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا متاثر ہونا، زندگی میں دلچسپی نہ لینا، جذباتی پن، اداس رہنا اور یاداشت کمزور ہونا شامل ہیں۔
ایک نجی ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر چالیس سیکنڈ میں ایک مرد خودکشی کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد اپنے مسائل کے بارے میں کم بات کرتے ہیں یا کم ہی مدد کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کے نہ رونے کو مردانگی سے جوڑ کر ان کی زندگی مزید مشکل کر دی گئی ہے۔
غربت، بیروزگاری، بے بسی کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تر افراد کی عمریں 30 برس سے کم پائی گئی۔ خواتین میں زیادہ تر شادی شدہ میں یہ رجحان پایا گیا جس کی وجہ گھریلو تشدد، سسرالیوں کا ناروا سلوک جس سے تنگ آ کر اپنی جان لے لیتی ہیں۔
رواں سال 2022 میں خودکشی کرنے والے افراد میں سے اکثریت یعنی 82 فی صد کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ 58 فی صد خواتین میں 55 فی صد شادی شدہ تھیں۔ مجموعی طور پر 36 فی صد متاثرہ افراد نے دریائے میں ڈوب کر اپنی جانیں لے لیں جن میں 77 فی صد خواتین شامل ہیں۔
اکثریت اپنی اس کیفیت کو بیماری نہیں گردانتے اور اگر کوئی شخص خودکشی کی بات کرے تو اسے سنجیدہ نہیں لیا جاتا بلکہ اسے تنقید اور تمسخر کا نشانہ بنا یا جاتا ہے جب تک کہ وہ یہ انتہائی قدم نہیں اٹھا لیتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ذمہ دار کون ہیں، معاشرتی بے حسی، ہمارا خاندان، رسوم و رواج، دوست احباب، بے روزگاری، غربت، سماجی نا انصافی، عدم مساوات، حسد یا محرومیاں، کم عمری کی شادی، زندگی کے خود ساختہ دوہرے معیار وغیرہ۔
ذاتی سطح پر ہونے والے مسائل کو بات چیت سے حل کیا جاسکتا ہے۔ ڈپریشن کو کبھی بھی ہلکا نہ لیں۔ اس کا شکار شخص کو ذہنی مریض بننے سے بچانے کے لیے ہمیں مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ ایسے شخص کو ماہر نفسیات کے پاس جانا چاہیے کیونکہ وہ تربیت یافتہ ہونے کے ناتے بہتر طریقے سے مریض کی مدد کر سکتا یا کر سکتی ہے۔
خدا کی بنائی ہوئی مخلوق، جس میں آپ کی ذات بھی شامل ہے، کو حقیر نہ جانیں، خوش رہیں، دوسروں سے غیر ضروری توقعات نہ باندھیں جو پوری نہ ہو سکیں۔ اپنی ذات سے محبت کرنا سیکھیں۔ دوسروں کو دیکھ کر حسد نہ کریں بلکہ جو کچھ آپ کے پاس ہے اس پر خدا کا شکر کریں اور ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھیں۔ ہو سکے تو دوسروں کی مدد کریں۔
دوسروں کے رائے کا احترام کرنا سیکھیں۔ خدا نے سب انسان برابر بنائیں ہیں لہذا سب کے حقوق کا احترام اور اس کو یقینی بنانے میں، جتنا ہو سکے، کردار ادا کریں۔
مردوں کے لیے عرض ہے کہ بھیا اگر رونا آ رہا ہو تو رو لو کیونکہ رونے سے مردانگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ آپ کی صحت پر مثبت اثرات ضرور مرتب ہوں گے ، یہ یقین رکھیں۔
حکومتی سطح پر اداروں اور ماہرین کی خدمات لی جائیں جو ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کرسکیں۔ ہمیں اپنی پالیسیوں، معیشتوں، ترجیحات اور عمل کو ان طریقوں سے دوبارہ سوچنا چاہیے جو صحت، مساوات، فلاح و بہبود اور معاشی استحکام میں فطرت کے اہم کردار کی عکاسی کریں۔
معاشرے کو مجموعی اور ہمیں انفرادی طور پر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی اور انہیں سدھارے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہیے تب ہی ہمارے اندر اور ہمارے اردگرد تبدیلی آئے گی۔
اچھی کتابیں پڑھیں۔ میوزک سنیں، اگر رقص کرنا پسند ہے تو ضرور کریں کیونکہ اس سے آپ کے اندر کی اداسی اور اکیلا پن دور ہو گا۔ البتہ سوشل میڈیا سے پرہیز کریں کیونکہ وہ آج کے دور میں انسانی دماغ کو سب سے زیادہ نقصان دے رہا ہے اور اکیلے پن کا شکار بھی۔
- انسان ہوں کسی کی جاگیر نہیں - 07/03/2023
- اے زندگی کتنے محاذوں پر لڑے گی؟ - 08/02/2023
- ہم مر جائیں لیکن غیرت زندہ رہے - 27/09/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).