نوحۂ تمباکو


چونکہ آج کل کا دور ایزی لوڈ کا دور ہے، لوگ تن آسانی کا شکار ہوچکے ہیں اس لیے جو کام گھر بیٹھے ہوئے ہو جائیں وہی معیاری کہلاتے ہیں اسی طرح پولیس کو بھی آسان ہدف کچھ کے نوش دکھائی دیتے ہیں اور ان کی پکڑ دھکڑ سے خوبصورت تصاویر اترتی ہیں لہذا کچھ بوتلوں کا ذخیرہ سامنے رکھ کے تصاویر بنوانے میں ایک یگانہ مسرت محسوس کرتے ہیں۔ نوکری کی سالانہ رپورٹ بھی اچھی ہوجاتی ہے اور فیسبک وغیرہ پہ لائیک بھی بہت سے مل پاتے ہیں۔

اسی فارمولہ کو مدنظر رکھ کر حکومتیں بھی فیصلہ سازی کرتی ہیں۔ جب بھی حکمرانوں کی بے تدبیری سے معاشی حالات دگرگوں ہوتے ہیں تو وہ فوری طور پہ تمباکو نوشوں کی سکت خرید مزید محال کر دیتی ہیں جیسے ان معصوم تمباکو نوشوں کی کسی غلطی کے باعث ہماری معیشت کی خرابی ممکن ہوئی ہے۔ ایسا بہرحال ہرگز نہیں۔ دراصل یہ طبقہ وہ ہے جو اپنے خرچہ پہ دوسروں کی طعن و تشنیع کو خندۂ پیشانی سے بوجوہ برداشت کر لیتا ہے اور اپنی مستی میں غرق رہنے کی اداکاری کرتا ہے حالانکہ وہ ایک تلخ تجربہ سے گزر رہا ہوتا ہے۔

اب اس بے بس طبقۂ مے نوشوں اور تمباکو نوشوں پہ جو ظالمانہ ٹیکس لگایا گیا ہے وہ نہ صرف ناجائز اور ناروا اضافہ ہے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی زہرقاتل ثابت ہو گا۔ اربوں روپے کی معاشی سرگرمیوں میں شب و روز مشغول تمباکو نوشوں کی صلاحیتوں سے مستفید ہوا جائے۔ اب یہ ظلم عظیم ہے نا کہ 250 روپے والی سگریٹ کی ایک ڈبی یک دم 500 روپے میں بھی ملنا جان جوکھوں کا کام بن چکا ہے۔ ایسی کون سی آمدن ہونا شروع ہوگی ہے کہ یک دم اس قدر بھاری ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔

ایسے ظالمانہ فیصلہ سازی سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہیے نا کہ آج کل کے دور ناروا میں لوگ تیزی سے اپنے کاروباری حالات کے ہاتھوں مجبور محض بن چکے ہیں، ملازمین کو نوکریوں میں پچھلے کئی برس سے کوئی اضافہ نہیں ہوا جن لوگوں کی ملازمت اب تک برقرار ہے وہ بے حس حکمرانوں کی آئے روز کی دھونس و دھمکیوں سے نوکریوں سے محرومی کے خدشات کے باعث پہلے ہی جوتم بیکار ہیں۔

اس تحریر کو تمباکو نوشوں کا نوحہ سمجھا جائے اور ہمدردانہ غور کیا جائے اور داد رسی کا کوئی امکاں کیا جائے ورنہ ان معصوموں کی آئیں عرش بھی ہلا دیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments