پاکستانی پالیسی کی دلدل کا تجزیہ


\"aimalافغانستان میں قیام امن کے حوالے سے چار فریقی مذاکراتی عمل جاری ہے اور افغان حکومت اور اسکے مسلح مخالفین کے درمیان بلاواسطہ معطل بات چیت کی بحالی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اور امکان یہ کہ بہت جلد یہ بات چیت بحال ہو جائیں گے۔ مگر افغان حکومت اور اس کے مخالفین کے درمیان ہونے والی بات چیت کی کامیابی کے حوالے سے اب بھی کافی شکوک و شبھات اور ناامیدی موجود ہے۔ اس ناامیدی اور شکوک کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ کیونکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے معمولی سے معمولی کوشش اور اور بہتری کی طرف چھوٹے سے چھوٹا قدم اٹھانے کے بعد عموماً ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں کہ حالات پھر زیرو پر آ جاتے ہیں۔ اور پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہونے کی بجائے بد سے بد تر ہوتے جاتے ہیں۔ پہلی دفعہ افغانستان میں جمہوری عمل کے ذریعے ایک نسبتاً وسیع البنیاد قومی وحدت کی حکومت وجود میں آئی ہے جس میں افغانستان کے تمام علاقوں، نسلی، اور مذھبی گروپوں اور طبقوں کی نمائندگی دی گئی ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے تو موجودہ افغان قیادت پاکستان کے ساتھ تمام شعبوں میں بہتر تعلقات کی خواہاں ہے۔ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ افغانستان میں انڈیا کو سٹرٹیجک سپیس یا قدم جمانے کا موقع کس نے دیا؟ پاکستان کے کٹر حامیوں کو پاکستان مخالف کیمپ میں کس نے دھکیلا؟ ہمارے پالیسی ساز یہ بات مانیں یا نہ مانیں، پاکستان کے لئے سٹرٹیجک سپیس ( strategic space) محدود ہوگءہے یہ مواقع ہم کیوں گنوا رہے ہیں ؟ پاکستان کے لئے افغانستان میں خیر سیگالی کی جذبات میں کمی اور مخاصمانہ کے بڑھنے کی کیا وجوہات ہیں ؟ یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات ان لوگوں کے ذہنوں میں جو افغان امور میں دلچسپی رکھتے ہیں موجود ہیں اور اس کے جوابات ڈہونڈنے کی کوشش میں ہے۔ افغانستان میں بڑھتےہوئے پاکستان مخالف جذبات یقیناً ہمارے پالیسی سازوں کے لئے بھی باعث پریشانی ہوگا۔ اس صورتحال پر کیسے قابو پایا جائے اور خیر سگالی کی جذبات کو کیسے بحال کیا جائے یہ ایک اہم چیلنج ہے۔ جس کے لیے پالیسی اور سوچ میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پالیسی کو بروئے کار لانے والے یا عملی شکل دینے والے ذرائع اور طریقہ کار بدلنے کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہ تبدیلی اس لئے بھی ناگزیر ہے کیونکہ سٹرٹیجک ڈیپتھ ( strategic depth) کی پالیسی سٹرٹیجک ڈیتھ ( strategic death) اور ہمار ے پالیسی کو پروان چڑھانے والے ذرائع سٹرٹیجک اسیٹ ( strategic assets) سے سٹرٹیجک لائبلٹی ( strategic liability) میں تبدیل ہو رہی ہے۔ سابق افغان صدر اور ممتاز جہادی راھنما صبغت اللہ مجددی کا حالیہ بیان کا حوالہ ہمارے پالیسی سازوں کی ذہن کو جھنجھوڑنے اور حقائق کا ادراک کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ مجددی صاحب نے کابل میں افغانستان سے سوویت فوجوں کی انخلا کے ستائیس سال پورے ہونے کے خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمسایہ ملک پاکستان نے افغانستان میں خون ریزی کو ہوا دینے کا سلسلہ بند نہیں کیا تو افغان پاکستان کے خلاف اعلان جہاد کردیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان نے طالبان کی حمایت اور ان کے ذریعے افغانوں کی خون سے ہولی کھیلنا بند نہیں کی تو سوویت یونین کی طرح پاکستان کے خلاف بھی جہاد کا اعلان کردیں گے۔ پاکستان سے تعلق اور دوستی کے حوالے سے بدنام یا نیک نام افغان راھنما کی جانب سے اس قسم کے مخاصمانہ بیانات حالات کی سنگینی کا پتہ دیتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ سوچ صرف مجددی صاحب تک محدود نہیں بلکہ ایک عام افغان بھی اس سوچ کا حامل ہے۔ تقریباً پانچ ماہ قبل سینکڑوں افغان علما نے پاکستان کے خلاف جہاد کا فتوی دیا تھا۔ اس بیان کے بعد یقیناً ہمارا روایتی ردعمل تو یہی ہوگا کہ ہر قسم کی گالیوں کے ساتھ ساتھ مجددی صاحب کو نمک حرامی اور احسان فراموشی کے طعنے دیے جائیں گے۔ کچھ انتہاپسند اور پرانی ذہنیت والے ریاستی یا ریاست کے پروردہ عناصر بجائے اسکے کہ پاکستان کے ہمدرد اور حامی حلقوں کے اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ کیوں مجددی جیسی شخصیات ایسے بیانات دینے پر مجبور ہوئی اسکی ماضی کا کچا چٹھا نکالا جائے گا اور اسکا تعلق علاقے کی بعض انٹلی جنس ایجنسیوں سے جوڑا جائے گا۔ اور سارے دلیل اور بحث مباحثے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سارا قصور مجددی صاحب اور بیرونی ایجنسیوں کا ہے۔ اور ہم تمام ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جائیں گے۔ مگر پاکستان کے خیرخواہ افغانیوں کا یہ سوال کہ آخر کیوں افغانوں میں پاکستان کے لئے موجود خیر سگالی کی جگہ مخاصمانہ جذبات پنپ اور بڑھ رہے ہیں ہمارا پیچھا کرتا رہے گا۔ گزشتہ چند مہینوں میں میرا اور میرے بعض پشتون اور غیر پشتون دوستوں کا مختلف غیر سرکاری فورموں میں افغان دانشوروں سے واسطہ پڑا ہے اور ان سے بات چیت ہوئی ہے. سب نے افغانستان میں عوامی سطح پر پاکستان کے حوالے سے بڑھتی ہوئی تلخی اور منفی جذبات کو شدت سے محسوس کیا ہے۔ اور وہ اپنی حیرت اور پریشانی کو چھپا نہ سکے۔ کچھ دوستوں نے اخبارات اور جراید کو لکہے گے مضامین میں بھی اس طرف اشارے کیئے ہیں۔ بدقسمتی سے اس روایتی اور انکار پر مبنی ذھنیت نے ہمیں حقائق سے آنکھیں چرانے اور خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کا شکار ہونے کا خوگر تو بنا دیا مگر بحرانوں سے نکلنے کی بجائے مزید بحرانوں کا شکار کیا۔ کیونکہ حقائق سے فرار یا چشم پوشی یا صحیح ادراک نہ کرنے کی وجہ سے بحران کی وجوہات اور اس کے ممکنہ صحیح اور بہترین حل ڈھونڈنے میں مدد نہیں ملتی۔ ھاں اگر ماضی میں حکمران عوام کی آنکہوں میں دھول جھونکنے میں کامیا ب ہوئے ہیں تو شاید اب وہ کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments