انسانی مہارت کا سفر “جینوم پراجیکٹ”


انسانی جسم بہت ہی پیچیدہ خلیوں سے مل کر بنا ہے۔ اس کا ہر عضو پرت در پرت پر مشتمل ہے اسی لئے اب اس جسم کے ہر حصے کے علیحدہ ماہر ڈاکٹرز نظر آتے ہیں جو اپنی اپنی فیلڈز میں مہارت رکھتے ہیں۔ جو بھی حیات اس دنیا میں معرض وجود میں آئی ہے خواہ وہ ایک خلیے جیسے امیبا یا پھر بہت ہی پیچیدہ حیات جیسے انسان جو کہ اربوں کھربوں خلیوں پر مشتمل ہے۔ سب کے بارے میں اب آہستہ آہستہ سائنسی معلومات اس کی ترقی کی بدولت دنیا کو میسر ہو رہی ہیں۔

اگر خلیے کی ہیئت کو دیکھا جائے تو یہ لا تعداد جینیٹک مواد سے مل کر بنا ہے جسے ڈی آکسی راہبو نیوکلک ایسیڈ یا مخفف طور ڈی این اے کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مالیکیول ہے جو اعضاء کے بننے اور فنکشن کرنے کے کے بارے میں جینیٹک معلومات رکھتا ہے۔ یہ بل کھاتی دو لکیروں جیسی ساخت ہے جو ایک دوسرے کو منسلک رکھے ہوئے ہوتی ہیں اس میں شوگر جس میں ڈی آکسی راہبوز اور فاسفیٹ کا گروپ ہوتا ہے، شامل ہیں۔ جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے ویسے ویسے اس پیچیدہ حیات کے بارے قیمتی معلومات کا خزانہ بنی نوع انسان کے ہاتھ آ رہا ہے۔

بقول سائنسدانوں کے دو اجسام کا ڈی این اے تقریباً 99.9 فیصد ملتا جلتا ہے اور صرف 1 فیصد ایک دوسرے سے مختلف ہے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے الگ جدت رکھتے ہیں۔ جو ہماری ماحولیاتی، سماجی، صحت کے رویوں کی اقدار سے منسلک ہے۔ یہ کیسا نظام قدرت ہے جو انتہائی پیچیدہ، گنجلک اور ایک عجوبہ ہے اور انسان اب اپنی تحقیق سے اس ڈی این اے ساخت کو سمجھنا شروع ہوا ہے۔

ایک انسانی خلیے کے مکمل ڈی این اے معلوماتی ساخت کا سیٹ جینوم کہلاتا ہے اس میں خلیے کے نیوکلس (مرکز) میں کروموسوم کے 23 جوڑے ہوتے ہیں ان کے علاوہ چھوٹے چھوٹے چھوٹے دوسرے بھی کروموسومز ہوتے ہیں جنہیں مائیکرو کونڈریا کہا جاتا ہے۔ یاد رکھیے یہ سب سائنسی اصطلاحات ہیں۔ یہ ہی انسانی حیات کی نشوونما، حرکات و سکنات اور فنکشن کے بارے معلومات کا خزانہ رکھتا ہے۔ اگر سادہ زبان میں بات کی جائے تو جینز کے مطالعے کا نام جینوم ہے۔ جین کروموسومز کی اکائی ہے جو موروثی خصوصیات جو اسے والدین سی ملی ہوتی ہیں، کو اولاد تک منتقل کرتی ہے۔ اسے موروثی نسب بھی کہا جا سکتا ہے۔

مستقبل میں جینوم انسان کی موروثی بیماریوں کے علاج کو بہتر طور پر حل کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ اس کے علاوہ جینز کا پروفائل انسانی موروثیت کے بارے پراثر وضاحت کر سکے گا۔ مثلا، اس کی آنکھیں، بالوں کی ہیئت، قد، نسب اور دوسری کئی چیزوں کو ظاہر کر دے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کی جینوم کا پراجیکٹ انسان کی صحت کے بارے وسیع معلومات مہیا کرے گا جس کی بدولت مرض کی تشخیص میں سرعت اور علاج کم خرچ ہونے کے علاوہ بہتر طور انجام دیا جا سکے گا۔

اس میں خصوصاً موروثی بیماریوں بریسٹ کینسر، سکل سیل کی بیماری، سسٹک فائبروسس اور اینیمیا (خون کی کمی) کا علاج ممکن ہو گا۔ ویسے تو جینوم ایک وسعت پذیر مضمون ہے اور حیات کے بارے مزید و مربوط معلومات حاصل ہوں گی اور دن بدن ہو رہی ہیں۔ لیکن اس کا انسانی جینوم پراجیکٹ انسان کے بارے لا تعداد جینیٹک معلومات کا خزانہ فراہم کر رہا ہے جو مستقبل میں بیماریوں کا قلع قمع کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ اس سے نئی دوائیوں کی ایجاد اور موجودہ دوائیوں کو پر اثر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

جینز پر تحقیق سے اس کا مختلف بیماریوں سے تعلق، موروثی بیماریوں کو سمجھنا اور ان کا علاج کے علاوہ ماضی کی انسانی ہجرت کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی۔ جو بنی نوع انسان کے لئے سود مند ہوں گی۔ ایک اندازے کے مطابق تیس تا چالیس ہزار جینز ایک انسانی جسم میں پائے جاتے ہیں۔ ڈی این اے پر تحقیق سے غیر یقینی کیفیت سے انسان نکلنے کے قابل ہو گا۔ اسے اپنی صحت و کینسر بارے وسیع معلومات میسر ہوں گی۔ اس معلومات کی بدولت انسان اپنے علاج معالجے و زندگی کے طور طریقوں کو بہتر بنانے کے بارے احسن فیصلے کر سکے گا۔

اسی کے ساتھ اپنے خاندان کے دوسرے افراد کو خاندانی بیماریوں کے خطرات بارے بہتر معلومات سے آگاہ کر سکے گا۔ جینوم آپ کو کیا معلومات فراہم کر سکتی ہے؟ اس بارے ایک امریکی فرد جان کر یگ جونسن اور اس کی ٹیم نے سب سے پہلے دنیا میں جینوم کی ترتیب کا پہلا مسودہ پیش کیا۔ جینوم کی ترتیب پر تحقیق سے اس کے ڈی این اے اور اس کے اندر پیچیدہ نیکلیو ٹائڈز اور دوسرے اجسام کے بارے مزید معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔ جینوم کی مکمل ترتیب ایک عمل ہے جس سے اس کے اندر کے اجسام بارے نہایت گہرائی میں جا کر تحقیق و معلومات حاصل کی جا سکیں گی اور اس سے بیش بہا معلومات کا خزانہ حاصل ہو سکے گا۔ یہاں ایک بات جو یاد رکھنے والی ہے وہ یہ کہ اس ڈی این اے پروفائلنگ کی وجہ سے الجھن محسوس نہ کی جائے یہ صرف کسی کے جینیٹک مواد سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اس انسان کی انفرادیت کیا ہے یا وہ کس گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سے کسی انسان کی بیماریوں یا موروثیت کے بارے معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں۔

جدید تحقیق سے پتہ چل رہا ہے کہ کیسے موروثی بیماریوں اور کینسر کے مرض کا علاج ممکن ہو رہا ہے اب مغربی اقوام میں ان بیماریوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے علاج معالجے مہیا کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح کی ایک مثال خلیے کی تھراپی کہلاتی ہے جس کے تحت مرض والے خلیے پر اسے دوبارہ پیدا کرنے والی دوائیوں سے تھراپی کی جاتی ہے جس میں مریض کے اس خلیے کو دوبارہ پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے اس عمل کو ”سٹم سیل“ کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج کے لئے انتہائی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔

مغربی اقوام ایسے علاج کے لئے قوانین وضع کیے ہوئے ہے جس کے تحت ہر علاج مہیا کرنے والی تنظیم کی رجسٹریشن ہونا لازمی ہے جس میں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ قوانین کی عملداری تیز رفتاری سے کرنے کے اہل، احتیاط برتنے اور طریقہ علاج کے عمل کی پوری تفصیل آسانی سے سمجھ آنے والی زبان میں درج ہے۔ ان علاج معالجہ والی تنظیموں کا اپنا کلینک شروع کرنے سے قبل ان کا الحاق ”کنٹریکٹ ڈیویلپمنٹ اینڈ مینوفیکچرنگ آرگنائزیشن“ سے ہونا ایک لازمی جز ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments