مسلسل اور بڑھتا “برین ڈرین” خطرناک ہے


انسانی سرمایہ معیشت کا ایک اہم اور بنیادی جزو ہے۔ کسی معاشرے کی ترقی، عروج اور خوشحالی تعلیم یافتہ اور جدید علوم و فنون سے لیس انسانی خزانے (افرادی قوت) میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب حالات سخت ہو جاتے ہیں اور زندگی گزارنا مشکل ہو جاتاہے تو اعلیٰ پیشہ ور، ہنرمند، قابل، ذہین اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک سائنسدان، ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرین تعلیم، ماہرین معاشیات اور دانشور  اپنے ممالک (زیادہ تر صورتوں میں ترقی پذیر ممالک) چھوڑ کر کہیں اور (ترقی یافتہ ممالک) چلے جاتے ہیں۔ جہاں وہ بہتر آمدنی، معیارِ زندگی اور مواقع محسوس کرتے ہیں، سماجی آزادی اور آزادانہ ماحول ان کا منتظر ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر لوگوں کا بڑے پیمانے پر ایک مقام سے دوسرے مقام منتقلی کے عمل کو “برین ڈرین” کہتے ہیں۔
جب کسی مخصوص علاقے اور ملک سے انسانی سرمایہ کم یا ختم ہوجاتا ہے، تو اس کے مقامی سماج اور معیشت پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ معاشی استحصال ہر کوئی جانتا ہے لیکن اخلاقی، سماجی، ثقافتی،  ذہنی اور فکری استحصال سے کم لوگ واقف ہیں۔ اعلیٰ دماغ، ہنرمند، پیشہ ور اور توانا افراد کو پسماندہ معاشروں/علاقوں سے نکالنا یا ایسے حالات اور مواقع پیدا کر ترقی یافتہ معاشروں میں لانا ترقی پذیر معاشروں کی ذہنی، فکری اور نفسیاتی استحصال ہے، جو ساتھ ساتھ اخلاقی، سماجی اور ثقافتی استحصال بھی کرتا ہے۔ اس دماغی کھیل (Brain games) کو سمجھنا ازحد ضروری ہے۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 2020 میں 225213، 2021 میں 288280، 2022 میں 832339 جبکہ اسی سال کے پہلے دو مہینوں میں 127400 افراد پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ باہر جانے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں اسی سال 2023 کے اعدادوشمار کے مطابق ابتدائی دو مہینوں میں 549 ڈاکٹر، 1396 انجنیئر، 2658 ایسوسی ایٹ الیکٹریکل انجینئرز، 1257 اکاؤنٹنٹ، 473 کمپیوٹر ایکسپرٹس، 241 اساتذہ، 1361 ایگریکلچر ایکسپرٹس، 2126 کمپیوٹر آپریٹرز، 559 نرسز اور 4101 ٹیکنیشن شامل ہیں۔ پچھلے سال بیرونی ملک جانے والوں میں ایک لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ور افراد تھے جن کے پاس طب، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی وغیرہ میں ڈگریاں تھیں۔ پاکستان میں تیار ہونے والے ڈاکٹرز میں سے 40 فیصد بیرون ملک مقیم ہیں۔ اگر صورتحال یہی رہا تو اسی سال کے اختتام پر 764000 سے زائد افراد باہر چلے جاچکے ہوں گے۔
ہنرمند اور پیشہ ور افراد کا باہر جانا انتہائی تشویشناک اور خطرناک ہے۔ ترقی یافتہ ممالک دنیا بھر کے ترقی پذیر معاشروں سے اعلیٰ دماغ، ہنرمند اور پیشہ ور افرادی قوت نچوڑ رہے ہیں۔ چونکہ ترقی یافتہ قوموں کے پاس دولت، جدید ٹیکنالوجی، آسائشیں ہوتی ہے، سب سے بڑھ کر امن اور انصاف بھی ہوتا ہے تو تیسری دنیا کے رہنے والے لوگ حکمران طبقے کی بددیانتی، خود غرضی اور نااہلی کی وجہ سے برباد، ظلم، جبر، وحشت، جمود میں لپٹے اور امن، سکون، انصاف، ترقی اور آزادی سے خالی سماج میں کیوں اپنی زندگی جیے گا؟
اپنے قوم اور ملک کو آسائشوں یا مجبوری کے تحت اعلیٰ تعلیم، ملازمت، روزگار، آزادی یا امن کے حصول کے لیے چھوڑنے والا پیشہ ور اور توانا نوجوان اپنی اہلیت، قابلیت، صلاحیت اور حتیٰ کہ زندگی ترقی یافتہ ممالک میں کھپاتی ہے۔ ترقی پذیر، پسماندہ، جدید ٹیکنالوجی اور علوم میں پیچھے رہنے والے قوموں کے پاس بدلنے کا یہی واحد قوت اور سہارا ہوتی ہے جن پر اسی سماج نے سرمایہ کاری کی ہوتی ہے، پرورش کی ہوتی ہے، تعلیم اور  موجود مواقع دی ہوتی ہے۔ جب سماج کو بدلہ، عوض اور بدلنے کی ان باصلاحیت لوگوں میں طاقت اور اہلیت آ جاتی ہے تو یہ مجبور، مرعوب، ناامید یا کمزور پڑ کر اپنے وطن کو چھوڑ کر کہیں اور ملازمت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ نئی نسل اور قوم کے کل کی امید ہی ختم ہوجاتی ہے۔
میں حیران اس وقت ہوگیا جب کلاس میں استاد محترم نے پوچھا کہ کون کون اعلیٰ تعلیم، روزگار اور آباد ہونے کے لیے باہر جانے کا ارادہ یا آرزو رکھتے ہیں؟ میں ہکا بکا رہ گیا جب کلاس کے 35 طلباء میں سے 34 نے ہاتھ اٹھائے۔ خود استاد محترم نے بھی جب اسی موضوع پر اپنی زرین خیالات کا اظہار کیا تو میں سکتے میں چلا گیا۔ کلاس میں باقی رہنے والا صرف میں تھا، جس کا جواب نفی میں تھا۔
اس ذہنیت کی وجوہات ہیں۔ اس ذہنی پستی، مرعوبیت، اجتماعی مفاد کے بجائے انفرادی مفاد اور مادہ پرستی کے طوفان میں لتھڑے معاشرے کا بنیادی سبب ہمارے ظالم اور کرپٹ اشرافیہ، نظام تعلیم، طرزِ تعلیم اور حکومتی عوام دشمن پالیسیاں ہے جو انگریزوں کے دور سے چلے آرہے ہیں۔ ہماری نظام تعلیم مغلوب اور معذور ذہنیت کے لوگ تیار کررہے جس میں سوچنے، سمجھنے اور تحقیق کا مادہ ہی نہیں ہوتا۔ کلاس میں مباحثے کے دوران میں جو کچھ کہہ، بول یا سوچ رہا تھا وہ فقط میری اپنی سوچ، خیالات اور جذبات تھیں۔ میں دنگ رہ گیا جب میں نے اس حوالے سے باقاعدہ تحقیق کی اور اعدادوشمار نکالا۔
 “برین ڈرین” جس طرح کسی ملک کیلئے خطرناک ہے اسی طرح “ریورس برین ڈرین” اس سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ جب کسی وجہ یا حالات کی وجہ سے یہی شہری واپس آنا شروع ہو جاتے ہے تو ایک طرف ترسیلات زر ایک دم انتہائی کم ہونے کی وجہ سے معیشت کا بیڑا بیٹھ جاتا ہے تو دوسری طرف ان کو پھر ڈومیسٹک لیبر مارکیٹ میں جذب کرنا پڑتا ہے جو کہ ناممکن حد تک مشکل ہوتا ہے۔ اگر انصاف نہ ہو، سیاسی، سماجی، معاشی اور ماحولیاتی استحکام نہ ہو تو “برین ڈرین” جاری رہے گا۔
حل یہ ہے کہ جمود اور “Brain Drain” کو ختم کرے،  نئے خیالات اور تخلیقی صلاحیتوں کو داد دے۔ نوآبادیاتی نظام تعلیم، طرزِ تعلیم اور پالیسیوں میں معقول اور معنوی تبدیلیاں کی جائے۔ فکری اور نظریاتی آزادی، فوری انصاف، تحفظ اور میرٹ کا مضبوط نظام قائم کیا جائے۔ ملازمت کے بہتر اور یکساں مواقع سب کیلئے فراہم کیا جائے۔ مہارت اور قابلیت کی بنیاد پر مناسب معاوضے کا بندوست یقینی بنائے۔ اکیلے مالی مراعات کام نہیں کریں گی بلکہ دانشوروں اور ہنرمندوں کی حقیقی پہچان اور سماجی قبولیت جیسے اقدامات بڑے پیمانے پر زیادہ منافع بخش ثابت ہوسکتی ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments