مانگٹ کا گردوارہ بھائی بنو: ایک عمدہ تاریخی ورثہ


منڈی بہاؤ الدین کی تحصیل پھالیہ میں ایک چھوٹا سا گاؤں مانگٹ ہے جس نے سکھوں کی مذہبی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ کر ایک منفرد مقام حاصل کر رکھا ہے کیونکہ اس شہر میں ایک ایسا گرودوارہ ہے جو تاریخی اہمیت میں انمول تو ہے ہی لیکن اس کے فن تعمیر اور آرٹ کے نمونے سکھ اور مغل فن تعمیر کا بہترین امتزاج ہیں جو آج بھی آنکھوں کو مسحور کر دیتے ہیں۔

یہ گرودوارہ بھائی بنو کے نام سے منسوب ہے جو 30 اپریل 1558 میں مانگٹ، منڈی بہاؤالدین میں بھائی بھیشان دیو کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے سکھ مذہب اپنایا اور سکھوں کے پانچویں اور چھٹے گرو بالترتیب ارجن اور گرو ہرگوبند کی خدمت میں رہے۔ بعد ازاں انھوں نے امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کی تعمیر کے دوران گرو ارجن اور گروہرگوبند کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام بھی کیا۔ جب سن 1604 میں سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب کی تالیف مکمل ہو گئی تو گرو ارجن نے اس کتاب کو لاہور سے جلد کروانے کے لئے بھائی بنو کا انتخاب کیا۔ بھائی بنو نے گر وار جن سے کتاب کو براستہ مانگٹ لاہور لے جانے کی اجازت مانگی جو انھیں دے دی گئی۔

مانگٹ کے راستے لاہور جاتے ہوئے بھائی بنو  نے گرنتھ صاحب کی ایک کاپی تیار کر لی اور دونوں کو گرو ارجن کے سامنے پیش کیا۔ گرو نے اصل کو گولڈن ٹیمپل میں رکھا اور کاپی بھائی بنو کو دے دی جو اسے مانگٹ میں اپنے گھر لے گئے۔ مانگٹ کا پرانا نام کھڑا مانگٹ تھا جس کی مناسبت سے گرو گرنتھ صاحب کی یہ کاپی ”کھاڑی والی بیڑ“ یا ”بنو والی بیڑ“ کے نام سے مشہور ہوگیٔ جس نے اس گردوارہ کو دوام بخشا۔

بھائی بنو اپنے مذہبی فرائض میں سکھ مذہب کا پرچار کرتے رہے اور جنوری 1645 میں انتقال کر گئے لیکن اپنے پیچھے گردوارہ کی شکل میں ایک تاریخی ورثہ چھوڑ گئے۔

یہ پرشکوہ گرودوارہ مغل اور سکھ تعمیراتی انداز کا ایک عمدہ مجموعہ ہے جو ایک مربع شکل کے پلیٹ فارم پر بنا ہے جس کے مختلف سمت میں چار دروازے ہیں۔ مرکزی دروازہ سنگ مرمر سے بنا ہے جس کے تعمیراتی انداز کو ’لیبل‘ کہا جاتا ہے۔ دروازے پر محراب کا جو انداز اپنایا گیا ہے اسے کسپڈ آرچ کہتے ہیں جس کی دو پرتیں اس کی ساخت کی اصل خوبصورتی ہیں۔ اس طرز کی محراب کو ’شاہجہانچی محراب‘ کہا جاتا ہے جبکہ فارسی میں اسے ’دانتے دار محراب‘ بھی کہتے ہیں جسے ہندوستان کے مغل بادشاہ شاہجہان نے متعارف کروایا تھا۔ اس محراب کے کونوں جنھیں اسپینڈرل کہا جاتا ہے، کو پھولوں کے نقوش سے آراستہ کیا گیا ہے جبکہ دروازے کے دونوں اطراف میں چراغوں کے لئے دو عدد طاق یا پشتاق بھی ہیں۔

گراؤنڈ فلور کی دیواریں بلائنڈ آرکیڈز سے سجی ہیں جس میں پیشتاقوں یا پینلز پر عقیدت مندوں کی مصوری کی گیٔ ہے جسے میورل کہتے ہیں جن میں روزمرہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی منظرکشی کی گیٔ ہے مثلاً ایک میورل میں دو عقیدت مند ایک دو چہروں اور چار ہاتھوں والی دیوی کے سامنے کھڑے ہیں جس کے ہاتھ میں کنول کا پھول ہے۔ اس دیوی کی عکاسی کرنے کے لیے آرٹ کی جو قسم استعمال کی گیٔ ہے اسے پر سونیفیکیشن کہتے ہیں دوسری طرف عقیدت مندوں کی پروفائل کو اسٹرکٹ پروفائل میں بنا یا گیا ہے۔

کنول کا پھول ہندوستانی آرٹ میں ایک مشہور موٹف ہے۔ اسی طرح اگر ایک اور میورل کو دیکھیں تو اس میں بھی غالباً ایک دیوتا کی منظرکشی کی گیٔ جو ایک طوطے پر سوار ہے اور دیوتا ایک سادھو سے محو گفتگو ہے۔ اس آرٹ کے لیے بھی درج بالا بیان کردہ تیکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن یہ وال میورل اب مدھم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

دوسری منزل کے بیچ میں محراب سے آراستہ تین کھڑکیاں ہیں جن کی محراب کے اوپر دوہری پرتوں والی محرابیں ہیں جن کو مصنوعی ستونوں کی مدد سے سجایا گیا ہے۔ یہاں اس کے ڈیزائن کی انفرادیت محراب کے اوپر گل نیلوفر کے پھولوں کی وجہ سے ہے۔ یہاں چھت کی طرف جانے والی سیڑھیاں نہایت تنگ ہیں جس میں سے بمشکل ایک شخص ہی گزر سکتا ہے جبکہ چھت پر ایک چبوترہ ہے جس کا گنبد قبہ سے سجایا گیا ہے ۔ گردوارہ کا مرکزی ہال محرابوں، پیشتاق اور پھولوں کے نمونوں کا امتزاج ہے۔ ان طاقوں میں شبیہ اور پھولوں کی مصوری کے لیے تیز رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے فن تعمیر کے انداز اور آرٹ میں تناسب ہے جس سے مذہبی جوش و خروش اور عقیدت کی عکاسی ہوتی ہے۔

یہ شاید گجرات اور منڈی بہاؤالدین اضلاع کی ایک ایسی انتہائی اہم عمارت ہے جس میں فن مصوری ابھی بھی عمدہ حالت میں باقی ہے اور دوسرا اس عمارت کی فن تعمیر اور اس میں استعمال ہونے والے نمونوں کا تنوع اسے اس زمانے کی عمارتوں سے منفرد کر دیتا ہے۔ لیکن آج یہاں پر ایک خاموشی کا راج ہے جو انگریزی شاعر جان کیٹس کے۔ ’اووڈ ٹو گریشن ارن‘ کی طرح فوسٹر چائلڈ آف سائلنس کی عمدہ مثال ہے۔

اگر اس گرودوارہ کی مناسب دیکھ بھال کی جائے تو یہ نہ صرف بہت سے سکھ یاتریوں کی توجہ کا مرکز بن سکتی ہے بلکہ آرٹ ہسٹری میں دلچسپی رکھنے والے اہل علم کے لیے بھی پر کشش ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments