ملکی معیشت، سیاسی استحکام اور مقام عبرت


وزارت خزانہ نے ملکی معیشت پر عالمی شہرت یافتہ پاکستانی نژاد امریکی ماہر اقتصادیات عاطف میاں کی نکتہ چینی کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے معیشت بحال کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ بس اب ملک میں سیاسی استحکام کا انتظار ہے جو جلد ہی حاصل کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد ملکی معیشت رو بہ پرواز ہوگی۔ اسحاق ڈار کی اس خوش فہمی پر اعتبار کر بھی لیا جائے تو بھی اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ ملک میں سیاسی استحکام کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں؟
دنیا بھر کے ماہرین مختلف ممالک کی معاشی صورت حال کا تجزیہ کر کے نتائج اخذ کرتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تجزیہ عاطف میاں نے بھی کیا ہے جس میں بعض مسلمہ اصول بیان کر کے واضح کیا گیا ہے اگر درآمد شدہ پیٹرولیم کو قیمت خرید سے کم پر فروخت کیا جائے گا اور ادائیگیوں کے توازن کا خسارہ کم کرنے کے لئے درآمدات بند کر کے صنعتوں کا گلا گھونٹا جائے گا تو اس سے قومی پیداوار میں کمی ہوگی اور ملک کے لئے قرضوں کی ادائیگی مشکل تر ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں غربت بڑھے گی، بے چینی میں اضافہ ہو گا اور ملک کے لئے سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ اسی تناظر میں عاطف میاں نے بنیادی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ موجودہ حکومت معیشت کے حوالے سے نا اہلی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ عاطف میاں کے الفاظ میں ’اگر آپ معیشت کو لاحق بنیادی مسائل کو سمجھنے سے انکار کرتے رہیں تو یہ دعوے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ‘ ہم دیوالیہ نہیں ہوئے ’۔ کسی بحران میں قوت فیصلہ کی کمی بری چیز ہے لیکن نا اہلی اس سے بھی بڑا نقص کہا جائے گا‘ ۔
عاطف میاں نے پاکستانی معیشت کا موازنہ گزشتہ دو سالوں میں ڈیفالٹ کرنے والے دو ممالک گھانا اور سری لنکا سے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں نصف رہ گئی، گھانا کی کرنسی کی قیمت میں بھی پچاس فیصد ہی کمی ہوئی ہے لیکن ڈیفالٹ کرنے کے باوجود سری لنکا کی کرنسی کی قیمت صرف ایک تہائی کم ہوئی چونکہ اس ملک میں معاشی اصلاحات کے لئے سخت فیصلے کیے گئے۔ لیکن پاکستان روپیہ مسلسل رو بہ زوال ہے اور یہ رجحان تبدیل ہونے کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔
وزارت خزانہ نے اس تنقید پر دو صفحات پر مشتمل بیان میں عاطف میاں کی باتوں کو ’علمی و نظری‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ عاطف میاں کو اندازہ نہیں ہے کہ عملی معیشت کیسے کام کرتی ہے۔ اس وضاحت کے مطابق پاکستان کا مقابلہ گھانا اور سری لنکا سے نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ان کی معیشت کا حجم پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ عاطف میاں پاکستانی معیشت کا جائزہ لیتے ہوئے ملک کے سنگین سیاسی بحران سے غافل دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کے حالات پرسکون نہیں ہیں جس کے معیشت پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سیاسی استحکام کے امکانات روشن ہیں جس کے بعد ملکی معیشت سرپٹ بھاگنے لگے گی ’۔ حالانکہ سرسری تجزیہ میں بھی یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان کی معیشت گھانا یا سری لنکا سے بہت بڑی ہے تو اسے سنبھالنے کے لئے بھی بڑا حوصلہ اور زیادہ مستقل مزاجی کی ضرورت ہوگی کیوں کہ اس کا بگاڑ بھی زیادہ نقصان دہ ہو گا۔
معاشی معاملات کے بارے میں یہ سرکاری پوزیشن اکثر ماہرین کی رائے اور پاکستانی عوام کی امیدوں کے برعکس ہے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد اتحادی جماعتوں کی کمزور حکومت قائم ہوئی تھی جو معیشت سنبھالنے کے قابل نہیں تھی کیوں کہ اسے مشکل معاشی فیصلے کرنے اور انہیں نافذ کروانے میں دقت پیش آ رہی تھی۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بعض حوصلہ مندانہ اقدامات ضرور کیے تھے جس کے نتیجہ میں آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوا اور ملکی معیشت میں بہتری کا امکان پیدا ہوا۔ لیکن یہ فیصلے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قیادت کے لئے قابل قبول نہیں تھے۔ اسی لئے چند ماہ بعد ہی مفتاح اسماعیل کو نکال کر اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ عوامی حمایت حاصل کرنے کے جوش میں اسحاق ڈار بھی آئی ایم ایف کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے برطانیہ سے پاکستان واپس آئے تھے۔ انہوں نے بعض طے شدہ امور میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی۔ اسی عاقبت نا اندیشانہ حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ آئی ایم ایف سے تعلقات خراب ہو گئے جو ابھی تک بحال نہیں ہو سکے۔ اسحاق ڈار مالیاتی پروگرام میں مسلسل تعطل کی ذمہ داری آئی ایم ایف پر عائد کرتے ہیں لیکن یہ نہیں مانتے کہ ان کے طرز عمل نے ایک بار پھر عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ عدم اعتماد میں اضافہ کیا۔ اب اس کی قیمت پاکستانی معیشت اور عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔
بہتر ہوتا کہ وزارت خزانہ کے ذریعے عاطف میاں یا کسی دوسرے اقتصادی ماہر کے بیان پر تردید جاری کرنے کی بجائے اسحاق ڈار اپنی ناقص پالیسیوں اور مجبوریوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے خاموش رہتے۔ موجودہ حکومت انتخابات سے خوفزدہ ہے۔ یہی خوف تحریک انصاف کے ساتھ حکومت کے تنازعہ کی بنیاد ہے۔ بلکہ سپریم کورٹ کے ساتھ تصادم کا آغاز بھی اسی لئے ہوا کہ عدالت عظمی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 دن کے اندر انتخابات کے آئینی اصول کو نافذ کرنے پر اصرار کر رہی ہے۔ حکومت کسی نہ کسی عذر کی بنیاد پر یہ انتخابات ٹالنا چاہتی ہے۔ جبکہ عمران خان کا خیال تھا کہ انتخابات کی صورت میں وہ واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ حکومت کی ایک مجبوری تو یہ ہے کہ یہ متعدد چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں کی حمایت پر کھڑی ہے اور اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لئے ان کے مالی مطالبات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت بھی جانتی ہے کہ انتخابات کو عارضی طور سے ٹالا تو جاسکتا ہے لیکن آئینی انتظام پر عمل کرتے ہوئے اس سے مفر ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی اصلاحات کے دعوے کرتے ہوئے بھی حلقہ جاتی سیاست کے لئے فنڈز فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے جو ملکی معیشت کو مزید زیر بار کرتا ہے۔
اب سانحہ 9 مئی کو عذر بنا کر تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف شدید مہم جوئی کی جا رہی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی سیاست ختم ہو گئی اور کبھی تحریک انصاف کو دہشت گردی میں ملوث قرار دے کر پابندی لگانے کی بات کی جاتی ہے۔ اصل مقصد صرف یہ ہے کہ کسی طرح عمران خان کی سیاسی حمایت کو محدود کر کے انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کیا جائے تاکہ حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں ہی کامیاب ہو سکیں۔ اس طرز عمل کو بھی دھاندلی اور سیاسی انجنیئرنگ ہی کہا جائے گا۔ کسی سیاسی پارٹی کے بعض ارکان یا لیڈر اگر قانون کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہوئے ہیں تو انہیں مروجہ طریقہ کار کے مطابق سزا دی جا سکتی ہے لیکن کسی احتجاج اور اس حوالے سے ہونے والے تشدد و زیادتیوں کو بہانہ بنا کر اس سیاسی پارٹی کو تنہا کرنے یا پابندی لگانے کی کوششیں نہ جمہوری ہیں اور نہ ہی اس سے کوئی مثبت نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
ملک کے سب سیاسی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی مذاکرات اور افہام و تفہیم کے بغیر ملک میں بے چینی ختم نہیں ہو سکتی۔ موجودہ تنازعہ جلد از جلد انتخابات کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت کو تحریک انصاف کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے کی بجائے بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ابھی تک اس کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ اسی لئے وزارت خزانہ کی یہ امید پورا ہونے کا امکان بھی موجود نہیں ہے کہ ملک میں جلد سیاسی استحکام پیدا ہو جائے گا۔ عمران خان کی مقبولیت یا ووٹ بنک کے بارے میں کوئی واضح اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں۔ لیکن بہر حال اس کی اتنی تعداد ضرور ہے جو شہباز شریف کی قیادت میں قائم حکومت کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے، اب مکرر گزارش ہے کہ تحریک انصاف کو زیر کرنے کے لئے 9 مئی کے سانحہ کو حجت کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کر کے کوئی متفقہ لائحہ عمل تلاش کیا جائے تاکہ ملک پیچھے جانے کی بجائے آگے کی طرف بڑھ سکے۔
عمران خان نے بھی اس حوالے سے کوئی قابل قدر طرز عمل اختیار نہیں کیا۔ ان کی مسلسل یہی کوشش رہی ہے کہ کسی طرح اسٹبلشمنٹ کو راضی کر کے اپنے لئے کوئی سیاسی راستہ نکالا جائے۔ ان کا اصرار رہا ہے کہ تحریک انصاف کی کمیٹی اس شخص سے مذاکرات کرے گی جس کے پاس ’حقیقی اختیار‘ ہے۔ ایسے بیانات میں آرمی چیف کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ تاہم آج تحریک انصاف نے حکومت سے مذاکرات کے لئے 7 رکنی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ابھی اس اعلان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی یہ وضاحت سامنے آ سکی تھی کہ ’حکومت‘ سے عمران خان کی کیا مراد ہے کہ لندن سے نواز شریف نے ایک ٹویٹ بیان میں مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بات چیت صرف سیاست دانوں سے کی جاتی ہے۔ شہدا کی یادگاروں کو جلانے، ملک کو آگ لگانے والے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے گروہ سے کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہو گی‘ ۔
یہ انتہاپسندانہ طرز عمل ہے جس سے ملک میں سیاسی مفاہمت کا ماحول پیدا نہیں ہو گا۔ بلکہ معاشی بحالی کے لئے وزارت خزانہ کے بیان میں جس سیاسی استحکام کی امید ظاہر کی گئی ہے، اس کا حصول بھی ممکن نہیں ہو گا۔ ہٹ دھرمی یا طاقت کے زور پر تحریک انصاف کو ملکی سیاست سے نکالنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس طریقے سے ہو سکتا ہے کہ اتحادی پارٹیاں ایک انتخاب جیت جائیں لیکن عمران خان سیاسی فیکٹر کے طور پر موجود رہیں گے۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کو صرف عوام کے ووٹوں سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ سازش یا دھاندلی سے حاصل کی ہوئی انتخابی کامیابی کا حشر بھی وہی ہوتا ہے جس کا سامنا اس وقت عمران خان کو ہے۔ کیا نواز شریف اور ان کے سیاسی ہم سفر اس سے عبرت حاصل کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments