بلال غوری کا کالم غلط بیانی کے سوا کچھ نہیں


\"anwarافلاطونی قسم کے دانشوروں کی فلاسفی سمجھ نہیں آتی کہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے زوال و انحطاط کی ایک کے بعد ایک وجہ بیان کرتے چلے جارہے ہیں۔ ایک اور الجھی ہوئی تحریر سامنے آئی ہے۔ صاحب نے اسلام اور سائنس کے حوالے سے اسلامی مکاتب فکر کا حسبِ معمول مذاق اڑانے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ ان کی تحریر طنز و مزاح کا شاہکار ہے اور ادبی طور پر اس کی داد نہ دینا بد دیانتی ہو گی، لیکن علمی طور پر غلط در غلط معلومات، مفروضات، الزامات اور اسلامی علمیت سے عدمِ واقفیت کا ایک شاہکار نمونہ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے :

عالم اسلا م کے زوال کا اصل سبب یہ ہے کہ جب بھی کوئی جدید تحقیق یا دریافت سامنے آتی ہے اول تو اس کو مانتے نہیں۔ اگر مانتے ہیں تو اس ماننے کی تین صورتیں ہیں یا تو ا±س تحقیق کرنے والے کو مسلمان ثابت کرنے میں لگتے رہتے ہیں، یا یہ کہتے ہیں کہ کفار سے بہت پہلے کسی مسلمان نے یہ تحقیق پیش کی تھی، آج کفار نے یہ تحقیق چراکر اپنے نام سے پیش کردی ہے۔ اگر یہ حربے ناکام ہوجائیں تو پھر یہ نسخہ تو ہے ہی کہ کافر جس سائنسی تحقیق پر آج پہنچے ہیں اس کی نشاندہی اسلام نے 14 سو سال پہلے کردی تھی۔ عالم اسلام کی حماقت ملاحظہ فرمائیں کہ سائنسی تحقیق اور دریافت کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے کے بجائے وہ تو ویلنٹائن ڈے جیسے موضوعات پر ہی لڑتے رہتے ہیں۔ صاحب نے سائنس او رٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نہ کرنے کو عالم اسلام کے زوال کا اصل سبب بتایا ہے۔ اگر مسلمان بھی آئن اسٹائن کی طرح کوئی سائنسی نظریہ پیش کردیں یا نیل آرمسٹرانگ کی طرح چاند پر قدم رکھ دیں تو امت کو پھر سے عروج حاصل ہوجائے گا۔ ا±سے تمام تہذیبوں پر غلبہ مل جائے گا۔ باطل اس کے مقابلے میں پاش پاش ہوجائے گا۔ ہر کام میں اسے اللہ کی معیت اور نصرت نصیب ہوجائے گی۔ سائنسی میدان میں ترقی نہ کرنے کی وجہ سے فرشتے ہم سے روٹھ گئے ہیں۔ آج اگر ہم میں کوئی آئن اسٹائن اور نیل آرمسٹرانگ پیدا ہوجائے تو فرشتے تیری نصرت کو اترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی۔\’\’

سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ کے عروج و زوال کا یہ تجزیہ درست ہے؟

اقبال نے کہا تھا:اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ، خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی، یعنی ملت اسلامیہ کے عروج وزوال کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم یہ نتیجہ اخذ نہیں کریں گے کہ جس راستے پر چل کر مغرب کو عروج حاصل ہوا ہے ا±سی راستے پر چل کر ہی قوم رسول ہاشمی کو عروج حاصل ہوگا۔ اگر اس بنیاد پر ہم عروج کا سفر شروع کریں گے تو کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے قوم رسول ہاشمی کو ا±س راستے پر چلنا ہوگا جو راستہ رسولِ ہاشمی نے ہمارے لیے متعین کیا ہے۔

مسلمانوں کے عروج کا آغاز جب ہوا ا±س وقت رومی، ایرانی، ہندوستانی، چینی تہذیبیں اپنے تمام علوم و فنون اور فکر و فلسفے کے ساتھ موجود تھیں۔ معروف مغربی مو¿رخ \’ٹائن بی\’ کے مطابق جدید مغربی تہذیب ان ہی قدیم یونانی اور رومی تہذیبوں کا بچہ ہے۔ ترقی کی تمام علامات اور آثار وہاں موجود تھے، لیکن اللہ کے نبی نے رومی، ایرانی، ہندوستانی، چینی فکر و فلسفے اور علوم و فنون کی بجائے انتہائی سادگی سے اللہ کا پیغام سنایا کہ مسلمانوں کو غلبہ اس وقت ملے گا جب وہ کامل ایمان والے ہوں گے، ”اور اقتدار اس وقت ملے گا جب ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح ہوگا“۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ریاست مدینہ میں جدید شہری سہولیات کے نہ ہونے کے باوجود ، عورتوں کے مردوں کے ساتھ امور میں شانہ بشانہ شریک نہ ہونے کے باوجود مسلمان روم و ایران کو فتح کررہے تھے۔

مسلمان سائنسی تعلیم و تحقیق اور ٹیکنالوجی کے دشمن نہیں ہیں، لیکن مسلمانوں کے زوال کا سبب صرف سائنس میں ترقی نہ کرنے کو بتانا درست نہیں ہے۔

کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ موجودہ سائنسی ترقی اور ایجادات و اکتشافات کے پیچھے ظلم وستم، جبر کی طویل خون رنگ داستانیں ہیں۔ نوآبادیات میں انسانوں کا وحشیانہ قتل عام، وسائل پر قبضے، زبردستی انہیں غلام بنانا، جانوروں جیسا سلوک کرنا، کیا سائنسی ترقی کی تاریخ سے یہ ساری برائیاں کھرچی جاسکتی ہیں؟ کیا برطانیہ کی موجودہ سائنسی ترقی کا پہیہ ہندوستان کی دولت، وسائل اور ہندوستانیوں کے قتل عام کے بعد نہیں چلا؟ مشہور سیاح ہیری لکھتا ہے کہ دہلی کے ایک کپڑے کے تاجر کے پاس اتنا سونا ہے کہ پورے بینک آف انگلینڈ کے پاس اتنا سونا نہیں۔ ہندوستان کا سارا سونا کہاں چلاگیا؟ آخر کیا بات ہے کہ ارسطو جیسے سپر جینئس آدمی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ ایٹم بم کے نام پر ایک ایسا ہلاکت خیز بم ایجاد کردیا جائے جس کے نتیجے میں بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں، مرد، جانور، فصلیں، سبزہ ہر چیز تباہ ہوجائے۔ سائنس کا علم ضرور حاصل کرنا چاہیے، لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کے نتیجے میں انسانیت کا کیا حال ہورہا ہے؟ چین نے گزشتہ 25 سال میں جتنی سائنسی ترقی کی ہے، یورپ اور امریکا نے تین سو سال میں بھی اتنی ترقی نہیں کی، لیکن اس سائنسی ترقی کے نتیجے میں چین کا سارا ساحلی سمندر اور 75 فیصد ندیاں آلودہ ہوچکی ہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر سال تین لاکھ اموات ہورہی ہیں۔ صاف ہوا میں سانس لینے کے لیے ہوٹلوں میں جاکر چین کے رہنے والو ںکو پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کی وجہ سے چین میں ہر سال 7 لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ شہریوں کے خون میں سیسے کی مقدار اس اوسط سے زیادہ ہے جسے دنیا بھر میں خطرناک تصور کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے بچے کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے۔

ماڈرن سائنس نے دعوی کیا تھا کہ وہ تسخیر کائنات کا فریضہ سرانجام دے گی،لیکن تین سو سال میں ترقی کے بجائے وہ تجہیز وتکفین اور تدفین کا فریفہ سرانجام دے رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت امریکا، چین، جاپان، بھارت اور دیگریوپی ممالک میں طوفانی بارشیں، قدرتی آفات اور زہر آلود فضائیں ہیں۔ کوپن ہیگن کانفرنس میں دنیا بھر کے سائنس دانوں نے مطالبہ کیا تھا سائنسی ترقی کی رفتار کو فوری طور پر روکا جائے ورنہ یہ کرہ ارضی ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح یورپ کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ اسی فیصد سائنسی ترقی کم کر دی جائے، ورنہ یورپ کا خطہ ختم ہوجائے گا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے اپنی کتاب میں اس تباہی کی تفصیلات بیان کی ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ امریکا نے تین سو سے زائد سائنسدانوں کو اس وجہ سے گرفتار کیا تھا کہ وہ سائنسی ترقی سے دنیا میں پھیلنے والی تباہی اور بربادی کے اعداد و شمار عوام کو فراہم کر رہے تھے، جس کی وجہ سے سرمایہ داروں میں خوف وہراس پھیل رہا تھا۔ جب ان گرفتار شدہ سائنسدانوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تو سپریم کورٹ نے ان کی اپیل بھی مسترد کر دی۔ ستم ظریفی تو دیکھئے ! موجودہ ترقی جن سائنسدانوں کی وجہ سے ممکن ہوئی انہی سائنسدانوں کوگرفتار کیا جارہا ہے۔ اورغوری صاحب مطالبہ کر رہے ہیں کہ عالم اسلام کے تمام ممالک اس سائنسی ترقی کو اپنائیں تاکہ رہی سہی کسر بھی ختم ہوجائے۔ اسلام علوم عقلیہ کے وجود کا قائل ہے لیکن تمام علوم عقلیہ قرآن وسنت کے نقلی دائرے کے تابع ہیں۔ علوم عقلیہ کا مقصد اسلامی مقاصد کے حصول کو ہر حال میں ممکن بنانا ہے ،لیکن وہ علومِ عقلی جو آخرت کے حصول میں رکاوٹ پیدا کریں اسلام ایسے علوم کا بالکل قائل نہیں ہے۔ ہمارے دانشور صاحب نے اس سائنسی علم کے بارے میںاگر مغرب کے صف اول کے فلاسفہ ہزرل، ہائیڈیگر، ڈلیوز، پاپر، مارکوزہے، رچررڈرارنی، فوکالٹ، ہیبرماس کی معرکہ آرا کتابیں ہی پڑھ لیںتو بہت سے توہمات اور مفروضات ختم ہوسکتے ہیں۔ ان فلاسفہ اور سائنس دانوں کی کتابیں سائنس کی آفاقیت کے دعوے کو رد کرتی ہیں اور سائنس کے مفروضات سے ماورا ہونے ، اس کے غیر اقداری عالمگیر ہونے کے تصورات کی تنقید کرکے اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ مشہور ماہر معاشیات فریڈرک لسٹ جس نے بسمارک کے ساتھ مل کر کام کیا اور جرمنی کے جدید معاشیاتی ڈھانچے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جدید انسان کے بارے میں وہ عجیب بات لکھتا ہے کہ”عقل مند آدمی وہ ہے جو جانتا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے جو چاہتا ہے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے، اس زیادہ سے زیادہ کا حصول ایسے طریقے سے چاہتا ہے کہ کم سے کم خطرات کا سامنا کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ کا جلد حصول ایسے طریقے سے چاہتا ہے کہ کم سے کم خطرات کا سامنا کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ جلد حصول جلد ازجلد ممکن ہوجائے۔ جو شخص، فرد، معاشرہ، ان تین سطحوں پر زندگی کے تانے بانے کو اس فلسفے کے تحت بننے کا قائل ہو وہی شخص تہذیب اور وہی فرد حقیقتاًعقلی ہے“۔ فریڈرک کا یہ تصور عقلیت معاشیات میں آج بھی مستعمل ہے اور مشہور سیاسی فلسفی \’\’John Rawls\’\’نے بھی اس تصور کو اپنے نظام فکر میں استعمال کیا ہے۔ جدید سائنس اس تیسری سطح کو زیادہ سے زیادہ مگر جلد سے جلد ممکن بنانے کا نام ہے ،اس کا اسلام سے اور اسلام کی خدمت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر بلال صاحب نے مغرب کے ان مفکرین کا مطالعہ کیا ہوتا تو وہ سائنسی ترقی کے بارے میں مسلمانوں کو ہدایات دیتے ہوئے کچھ غور و فکر سے کام لیتے۔

مسلمان یقینا سائنسی ترقی کے قائل ہیں، لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ انسان کے لیے انسانی زندگی زیادہ اہم ہے یا سائنسی ترقی زیادہ اہم ہے؟

یہ کیسا سائنسی دور ہے جس میں انسان دودھ پینے کا عادی نہیں، سگریٹ پینے کا عادی ہے۔ شاید وہ سمجھتا ہے کہ اس کے جسم کو کیلشیم کی نہیں، کینسر کی ضرورت ہے! اسلام انسان کو سائنسی ترقی سے منع نہیں کرتا، لیکن انسان صرف ایک مادّی وجود کا ہی نام تو نہیں۔ وہ مادّی وجود کے ساتھ روح کا وجود بھی رکھتا ہے۔ جسم اور روح کے مجموعے کا نام انسان ہے، لہٰذا اسلام ہمیں جہاں انسان کی مادّی ضروریات پوری کرنے کے لیے حکم دیتا ہے، وہاں وہ اس کی روحانی ضروریات کو بھی فراموش نہیں کرتا۔

کیا مابعد الطبیعات کی کوئی حقیقت نہیں؟ !

اگر نہیں تو پھر آئن اسٹائن نے سچ ہی کہا ہے کہ انسانی حماقت کی واقعی کوئی حد نہیں اور ہمارے افلاطونی بھائی نے جس کافر کا قول پیش کیا ہے ہمیں ا±س میں سے کسی سازش کی بو نہیں آرہی، ا±س نے بھی ٹھیک ہی کہا ہے کہ ”عقل کی انتہا ہوسکتی ہے، مگر بے وقوفی کی کوئی انتہا نہیں۔“ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان صاحب نے جدید فلسفہءسائنس، سائنٹفک میتھڈ، سائنس اور سرمایہ داری کے تعلق اور سائنس پر مغرب میں ہونے والی تنقیدی تحقیقات کا مطالعہ نہیں فرمایا۔ تاریخ سائنس کے ایک اہم محقق جارج سورٹن انٹرنیشل فلاسفی آف کانگریس کے صدرہزرل کی کتاب\’\’Crisis of European Scienes\’\’، ہزرل کے شاگرد ہائیڈیگر کاکوئی مقالہ ، فیرا بینڈ کی کتاب اور اس صدی کے سب سے بڑے سائنس دان بلکہ اس صدی کے آئن سٹائن فائن مین کی کتاب \’\’The Character of physical law \’\’کوبھی نہیں پڑھا۔ اگر انصاف کے ساتھ مغرب کے صف اول کے فلاسفہ ہزرل،ہائیڈیگر، ڈلیوز،پاپر ، مارکوزے، رچرڈرارٹی، فوکالٹ، ہیپرماس کی معرکہ آرا کتابیں پڑھ لی جائیں تو پراگندہ خیالات اور توہمات ختم ہوسکتے ہیں۔ صرف مشہور امریکی مو¿رخ جیئرڈ ڈائمنڈکی کتاب Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed کا مطالعہ کرلیں تو بھی ان کا وسوسہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بھائی نے ڈاکٹر حسین نصر، رینے گینوں اور ڈاکٹر ظفر اقبال کی کوئی کتاب بھی نہیں پڑھی، ورنہ وہ شمس و عباس جیسے مسلمان مرحومین پر طنز کی جرات نہ کرتے!

صاحب پینترابدلتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج کفار سائنسی تحقیق کے میدان میں جو ترقی کر رہے ہیں، اس کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے کیونکہ اس کی بنیادیں مسلمانوں نے فراہم کیں۔ انہوں نے اس نکتہ نظر کو سواد اعظم اہل سنت کے نکتہ نظر کے طور پر پیش کیا ہے۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صاحب نے کبھی عقیدہ طحاویہ اور عقائد نسفی کا مطالعہ نہیں فرمایا۔ ان دو کتابوں کے مطالعے کے بغیر کوئی صاحب اسلام کے بارے میں کوئی نکتہ نظر بیان کرتا ہے تو یہ نکتہ نظر غلط بیانی کے سوا کچھ اور نہیں۔

’جدید سائنس کی بنیاد اسلام نے رکھی‘، یہ نکتہ نظر انیسوی صدی کے آغاز میں عالم اسلام پر استعماری غلبہ کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اور اس نکتہ نظر نے رفتہ رفتہ جدیدیت پسند اور لبرل مسلمانوں کے اندر ایک عقیدہ، نظریہ، کلیہ، اصول اور فلسفے کی حیثیت اختیار کر لی، حالانکہ یہ فلسفہ اصلاً مغرب سے مرعوب جدیدیت پسند مفکرین کا نکتہ نظر ہے۔حیرت ہے کہ غوری صاحب نے مغرب کے حامی مذہبی جدیدیت پسند مفکرین کے غلط سلط نکتہ نظر کو عالم اسلام کی مسلمہ علمیت سے جوڑنے کی غلط کوشش فرمائی۔ عالم اسلام کے مسلمہ مکاتب فکر کا سائنس کے بارے میں جو کچھ نکتہ نظر ہے اس کی ترجمانی عصر حاضر کے ایک ممتاز محقق ڈاکٹر خالد جامعی کے شاگرد ظفر اقبال نے اپنی کتاب ”اسلام اور جدید سائنس نئے تناظر میں“ نہایت محققانہ شان کے ساتھ پیش کی ہیں۔ اس کتاب کے نئے ایڈیشن پر تمام مکاتب فکر کے علما نے تائیدی تقاریظ لکھی ہیں۔ عہد حاضر کے ایک بہت بڑے فقیہہ اور عالم مفتی تقی عثمانی صاحب نے تعریف و تائید فرمائی ہے۔ موصوف سے مو¿دبانہ درخواست ہے کہ وہ اسلام پر، علمائے دین پر، اسلامی مکاتب فکر پر، اسلامی علمیت پر، اسلامی تاریخ و تہذیب اور عقائد پر حملہ کرنے سے پہلے ان کتب کا لازمی مطالعہ فرما لیں، اس کے بعد اگر وہ مکالمہ کرنا چاہیں تو ہم حاضر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments