ہم اور ہمارے مسائل


پاکستان ساوتھ ایشیاء کا ایسا ملک جو اپنے محل وقوع کے اعتبار سے انفرادیت کا حامل اور اس کی آب و ہوا معتدل، موسموں کے اعتبار سے نہایت شاندار ملک اور زمین کی تزئین ایسی جس کا ثانی نہیں۔ یہاں کے باسی اپنی روایات کے حامل اور مہمان نوازی میں لاجواب۔ آزادی کے وقت سے یہ مختلف اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ آج کا پاکستان ان گنت مسائل سے دوچار ہے۔ دنیا میں یہ ہی واحد ایسا ملک نہیں جو انگنت مسائل کا انبار لئے ہوئے ہے۔ دوسرے ممالک بھی ایسے ہی مسائل سے دوچار ہیں۔ آج کا فوکس اپنے پیارے ملک پر ہے۔ جس کے مسائل کا تذکرہ ہونا چاہیے اور اسی کے ساتھ ہو سکے تو ان کے تدارک بارے اظہار رائے بھی ہونا چاہیے۔ یہ ملک آج کل یکمشت سیاسی، اقتصادی، دہشت گردی، سیکورٹی، انرجی کرائسس اور سماجی مسائل سے دوچار ہے۔ اسی کے ساتھ ہی لاقانونیت کی صورت حال کا بھی سامنا ہے۔ کرونا وائرس کی وبا کے بعد خوراک اور اس کی ترسیل کی بگڑتی صورت حال اور گرانی سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ہماری معیشت اتنی مضبوط نہیں ہے جو پے در پے ہچکولے سہ سکے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کو آزادی سے ہی ایک ازلی دشمن سے پالا پڑا ہے۔ جو ہماری جڑیں کاٹنے میں دن رات مصروف ہے اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

دور حاضر میں ہمیں سیاسی و سماجی انتشار کا سامنا ہے۔ سماجی شعبے میں ہمیں سرعت کے ساتھ اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارا سماج پولارائزڈ ہو چکا ہے اور بکھرنے کے قریب ہے۔ جب تک ہم ایک اکائی ہو کر اپنے مسائل سے نبرد آزما نہیں ہوتے تب تک کامیابی کی منزل ہم سے کوسوں دور رہے گی۔ ہمارے سماجی مسائل میں سر فہرست شرح ناخواندگی، بڑھتی آبادی، غربت، بیروزگاری، سماجی و معاشرتی نا انصافی، بچوں سے جبری مشقت، سیاسی انتشار، مالیاتی بحران، لاقانونیت، اقلیتوں پر حملے، ان کے مذہبی مقامات و گھروں پر حملے اور خواتین پر تشدد و استحصال شامل ہیں۔ اگر ہم ان مسائل پر قابو پا لیں تو ہمارے لئے ترقی کی راہیں ہموار ہوتی چلی جائیں گی۔

ناخواندگی کی شرح ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ ہے۔ تعلیم کی آگاہی اور اس کی اہمیت دیہاتوں کے لوگوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم تک رسائی اور معیاری تعلیم کا حصول ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اچھی تعلیم کا فقدان دیہی علاقوں میں شہروں کے مقابلے زیادہ ہے۔ ان علاقوں میں غیر معیاری اساتذہ جن کی اپنی تعلیم اور تجربہ ایک سوال رکھتا ہے۔ ٹیکنیکل سکولوں میں بھی ناتجربہ کار اساتذہ کی وجہ سے معیاری تعلیم کا میسر نہ ہونا فارغ التعلیم بچوں کو نوکریوں کے حصول میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

آبادی کی بڑھتی شرح بھی ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ آبادی کے بڑھنے کی شرح تیز تر ہے۔ جس سے مسائل کا حل مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے غربت کی شرح کا تناسب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہماری آبادی کا تقریباً 40 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ لوگوں کے پاس روزمرہ کی بنیادی اشیاء کی کمی ہے اور گرانی کی وجہ سے ان کے پاس بنیادی اشیاء کا حصول ممکن نہیں رہا۔ جس سے صحت پر اثر پڑنا ایک لازمی امر ہے۔ بچوں کو مناسب خوراک میسر نہ ہونے سے ان کا وزن اور صحت قابل رشک نہیں۔ ہمارے ہاں ویسے بھی صحت ایک کاروبار بن چکا ہے۔ ہر چیز میں آمیزش کو ہم نے اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔ جاگیردارانہ نظام بھی ہمارے معاشرے کی سماجی و معاشرتی ترقی میں ایک گمبھیر مسئلہ ہے جو غریبوں کو پنپنے نہیں دیتا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے پاس عالم اقوام میں سب سے زیادہ نوجواں نسل کا تناسب ہونے کے باوجود ہم اس سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کا ہر فرد اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ نہ لے۔ غربت انسان کو جرم سرزد کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انہیں حرام و حلال سے غرض نہیں رہتی۔ ہمارے ملک میں ہر سطح پر رشوت کا بازار گرم ہے اور انصاف بھی بکتا ہے۔ ایسا ستم زدہ معاشرہ کیا ترقی کرے گا۔ ایک اور سماجی و معاشرتی مسئلہ بیروزگاری ہے۔ نو جواں نسل تعلیم جیسے تیسے کر کے حاصل تو کر رہی ہے لیکن ان کے لئے نوکریوں کے مواقع ناپید ہیں۔ معاشرے کی ترقی میں مرد و عورت دونوں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے نہ تو ہم ان سے ملکی اور نہ ہی غیر ملکی سطح پر فائدہ اٹھا سکے۔ ہمارے ٹیکنیکل اداروں کو جدید خطوط پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر ایسی پالیسیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور بیروزگاری میں کمی آئے۔

جو معاشرہ انصاف پسندی پر مبنی نہیں ہو گا اس کے پنپنے کے مواقع کم ہوتے جاتے ہیں۔ اور وہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ ہمارے معاشرے میں چھوٹے بچوں کو گھر کی مالی مدد کے لئے تعلیم کو خیر باد کہتے ہوئے نوکری کرنی پڑتی ہے۔ جو دن ان کے کھیل کود اور تعلیم حاصل کرنے کے ہوتے ہیں انہیں اس چھوٹی سی عمر میں کام کاج میں کھپا دیا جاتا ہے۔

صحت مند معاشرہ ملکی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا صحت کا سیکٹر بہت ہی کرپٹ ہو چکا ہے۔ حکومتی سر پرستی میں چلنے والے ہسپتالوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہمارے ہاں ڈاکٹر بننا انتہائی فائدہ مند پیشہ بن گیا ہے۔ اس شعبے میں پیسہ کمانا مطمع نذر بن گیا ہے۔ انٹرنیشنل ٹرانسپیرنسی کے مطابق بھی صحت کا سیکٹر انتہائی کرپٹ بن چکا ہے۔ سب حکومتیں اس مسئلے کو احسن طور حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ہسپتالوں کی عمارات کو وقت کے ساتھ اپڈیٹ کرنا اور جدید مشینوں کو روشناس کرنے میں کوتاہی نظر آتی ہے۔ اس پر مریضوں کو بھاری فیسوں و ادویات اور مختلف ٹیسٹوں کی مد میں لوٹنا عام سی بات ہو گئی ہے جس کا تدارک وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈاکٹر تو مسیحا ہوتے ہیں لیکن یہ تو اب قصاب بن چکے ہیں۔ یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اچھے اور پروفیشنل ڈاکٹرز بھی موجود ہیں جو ہمارا سرمایہ افتخار ہیں۔ ان کی وجہ سے صحت کا سیکٹر چل رہا ہے۔

ہماری کمزور معیشت کو سخت سہارے کی ضرورت ہے۔ پٹرول و بجلی، روز مرہ اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ قرضوں کی مد میں ادائیگی ہماری معیشت کا جنازہ نکال رہی ہے۔ ہم نے تسلسل والی مالیاتی پالیسیاں اختیار ہی نہیں کی جو دیر پا ہوتیں اور اس کے ثمرات نظر آتے۔ دوست ممالک نے ہمیں مشورے دیے لیکن ہم انہیں نظر انداز کرتے رہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ملک میں سرمایہ کاری بھی رکی ہوئی ہے۔ اقتصادی و سیاسی دونوں ہمارے بہت بڑے بحران ہیں۔ جن سے جتنی جلدی نکلیں اتنا ہی بہتر ہو گا۔ جب ملکی معیشت اچھی طرح پرفارم نہ کر رہی ہو تو لامحالہ برآمدات پر اثر پڑتا ہے۔ اس کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ اس سے زر مبادلہ بڑھتا ہے۔ ہم بھیڑ چال والا معاشرہ بنتے جا رہے ہیں۔ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کیا کامیاب ہوئی ہم نے زرعی زمین اور پھلوں کے باغات کو بھی نہ چھوڑا اور ان پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا جال پھیلانا شروع کر دیا جس سے زرعی زمین کی قلت بڑھ رہی ہے۔ زرعی پالیسی کو دیرپا بنیادوں پر از سر نو منظم کرنا ہو گا۔ ورنہ خوراک کی قلت ایک سنگین مسئلہ بن جائے گا۔ اب وقت ہوا چاہتا ہے کہ ہم اپنے تمام سماجی و معاشرتی مسائل کو یکجا کرتے ہوئے منظم انداز سے توجہ دیں اور حل کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اس کے لیے نیک نیت، ایمانداری اور جذبے کے ساتھ ہر ایک کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments