انڈیا میں ناری شکتی: ایک تہائی خواتین نشستوں کا فائدہ کب اور کس کو پہنچے گا؟

گیتا پانڈے - بی بی سی نیوز، دلی


انڈیا میں خواتین کی قطار
انڈیا کی پارلیمنٹ میں ایک بل منظور ہوا ہے جس کے مطابق ایوان زیریں اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی نشتوں کی ضمانت ہو گی۔

لیکن ابھی انڈیا میں خواتین قانون سازوں کی تعداد میں اضافے میں کافی وقت لگے گا۔ اس بل پر عمل درآمد تب ہو گا جب انڈیا کی اگلی مردم شماری ہو گی اور اس کے بعد کی حلقہ بندی مکمل ہو گی۔ اس پیچیدہ عمل کو مکمل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

بدھ کو ایوان زیریں یعنی لوک سبھا نے ’ناری شکتی وندن ادھینیم‘ تقریباً متفقہ طور پر منظور کیا۔ 456 موجود ممبران میں سے 454 نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ جمعرات کو اعوان بالا یا راجیہ سبھا نے بل پر بحث کی اور متفقہ طور پر اسے منظور کر لیا۔

اب اس پر صدر نے دستخط کرنے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک رسمی عمل ہے اور اب یہ بل قانون بننے کے قریب ہے۔

اس بل پر ایک چوتھائی صدی سے کام ہو رہا تھا اور انڈیا کی حکومت نے اسے ’تاریخی‘ قرار دیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ یہ ’خواتین کو بااختیار بنائے گا اور ہمارے سیاسی عمل میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت‘ میں مدد کرے گا۔‘

لیکن حضب اختلاف کے سیاستدان حکومت پر تنقید کر رہے ہیں کہ انھوں اس پر عمل کرنے کی حتمی مدت ’مبہم‘ رکھ کر ’انڈیا کی لاکھوں خواتین اور بچیوں کی امیدوں‘ پر پانی پھیر دیا ہے۔

انھوں نے اس پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔

کانگریس جماعت کی سابق صدر سونیا گاندھی نے پوچھا کہ ’انھیں کتنے سال انتظار کرنا پڑے گا، ایک، چار، آٹھ؟‘

بل میں کیا ہے؟

یہ بل لوک سبھا، ریاستی اسمبلیوں اور دارالحکومت دلی میں خواتین کے لیے تمام نشستوں کا ایک تہائی حصہ مخصوص کرتا ہے۔

دلی وفاق کے زیر انتظام علاقہ ہے لیکن اس کی منتخب اسمبلی ہے۔

اس قانون کا اطلاق ان نشستوں پر بھی ہوگا جو پہلے ہی انڈیا کی سب سے زیادہ پسماندہ برادری کے لیے مخصوص ہیں جنھیں ’شیڈیولڈ کاسٹس‘ اور ’شیڈیولڈ ٹرائب‘ کہا جاتا ہے۔

545 رکنی لوک سبھا میں ان دو گروپوں کے لیے 131 سیٹیں مخصوص ہیں اور ریاستی اسمبلیوں میں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

انڈیا میں خواتین کا ایک گروہ جشن منا رہا ہے

قانون پر عمل درآمد کے بعد نشستیں 15 سال تک مخصوص رہیں گی لیکن اسے پارلیمنٹ توسیع دے سکے گی۔

پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون طے کرے گا کہ خواتین کے لیے کون سی نشستیں مخصوص ہوں گی اور انھیں ہر چند سال کے بعد تبدیل کیا جائے گا۔

خواتین کی ’مایوس کن‘ نمائندگی

انڈیا کے ماضی اور حال دونوں میں سیاست میں طاقتور خواتین نظر آتی ہیں۔ سنہ 1966 کے اوائل میں ہی انڈیا نے خاتوں وزیر اعظم کو منتخب کر لیا تھا اور اس وقت کچھ بڑی پارٹیز کی سربراہی خواتین کر رہی ہیں۔

وزارت اعلیٰ کا منصب سمبھالنے والی خواتین نے انڈیا کی کچھ بڑی ریاستوں کو چلایا اور متعدد خواتین اہم وفاقی اور ریاستی وزارتوں پر فائز رہیں۔ موجودہ صدر دروپدی مرمو سمیت ملک میں دو خواتین سربراہان مملکت رہ چکی ہیں۔

پیو ریسرچ سینٹر کے گذشتہ سال کے سروے کے مطابق زیادہ انڈینز کہہ رہے ہیں کہ ’خواتین اور مرد یکساں طور پر اچھے سیاسی رہنما بن سکتے ہیں‘ اور اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ انتخابات میں مردوں کے برابر خواتین نے ووٹ ڈالے۔

لیکن انڈین پارلیمنٹ اور اس کی ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی کو اکثر ’مایوس کن‘ قرار دیا گیا ہے اور اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ بدستور خراب ہے۔

پی آر ایس لیجسلیٹو ریسرچ کے سینیئر تجزیہ کار تشار چکربرتی کا کہنا ہے کہ سنہ 1952 میں پہلی لوک سبھا میں 5 فیصد خواتین ممبران تھیں اور اگرچہ 2019 کے انتخابات کے بعد یہ بڑھ کر 15 فیصد تک پہنچ گئی ہے، یہ کافی کم ہے۔ پی آر ایس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ قانون ساز اسمبلیوں میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ کم ہے، یہ تقریباً 9 فیصد ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ نشستوں کی تعداد خود سے نہیں بڑھی ’اور اگر کسی گروہ کی قانون سازی میں مناسب نمائندگی نہیں ہوتی تو ماہرین نوٹ کرتے ہیں کہ پالیسی سازی پر اثر انداز ہونے کی ان کی صلاحیت محدود ہوتی ہے،‘

انڈیا کو بھی اس صنفی تفاوت کو دور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ خواتین کے خلاف تمام قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے اقوام متحدہ کے کنونشن کا دستخط کنندہ ہے او خواتین ان کے لیے مساوی سیاسی حقوق اس کا حصہ ہیں۔

27 سال کی کوششیں

انڈیا میں طاقتور سیاسی منصبوں پر خواتین کی ضرورت پر کئی دہائیوں سے بحث ہو رہی ہے۔

ٹھیک 30 سال پہلے پارلیمنٹ نے گاؤں کی کونسلز اور شہری علاقوں کی میونسپل کارپوریشنز میں خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں مختص کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کی تھی۔

پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں نشستیں مختص کرنے کے لیے اسی طرح کا بل پہلی بار 1996 میں وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کی زیر قیادت اس وقت کی وفاقی حکومت نے پیش کیا تھا۔

اسے 1998، 1999 اور دوبارہ 2008 میں پارلیمنٹ میں متعارف کرایا گیا۔

ہر بار، یہ بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ سمیت کئی سیاسی جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے آگے نہ بڑھا۔

یہ بل وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے اور اس میں بہت کچھ ماضی میں پیش کیے گئے بلوں سے لیا گیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور حضب اختلاف کانگریس پارٹی دونوں اس کے کریڈٹ پر دعویٰ کر رہی ہیں۔

پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث

دونوں اعوانوں کے حکومتی بینچز کے مقررین نے پارلیمنٹ میں بل کی منظوری پر وزیر اعظم کی تعریف کی۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ’خواتین کی سلامتی، احترام، مساوی شراکت وزیر اعظم مودی کی حکومت کی جان ہے۔‘

تمام جماعتوں سے اس کی حمایت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ بل ایک ’اچھی شروعات‘ ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو اسے بعد میں بہتر کیا جا سکتا ہے۔

کانگریس کے حامیوں نے پارٹی کی سابق صدر سونیا گاندھی کا بل کا ’مسلسل تعاقب‘ کرنے پر شکریہ ادا کیا

کانگریس کے حامیوں نے پارٹی کی سابق صدر سونیا گاندھی کا بل کا ’مسلسل تعاقب‘ کرنے پر شکریہ ادا کیا

اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ کچھ نشستیں دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) اور مسلمان خواتین کے لیے مختص کی جائیں۔

او بی سی وہ گروہ بندی ہے جس میں ایسی پسماندہ ذاتیں شامل ہیں جو ’شیڈیولڈ ذاتوں‘ اور ’شیڈیولڈ قبائل‘ میں شامل نہیں ہیں۔

حضب اختلاف نے حکومت سے اگلی مردم شماری میں ذاتوں کا سروے کرنے کا بھی مطالبہ کیا لیکن ان کے مطالبات کو رد کر دیا گیا ہے۔

لوک سبھا میں بل کے خلاف ووٹ دینے والے دو ممبران پارلیمنٹ میں سے ایک رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ اس کی موجودہ شکل میں اس سے صرف اونچی ذات کی خواتین کو فائدہ ہوگا۔

خواتین ممبران میں اضافہ کب ہو گا؟

انڈیا کی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کی صنفی ساخت میں جلد تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔

امت شاہ نے وعدہ کیا ہے کہ مردم شماری ’جلد‘ اگلے عام انتخابات کے بعد ہو گی۔

مردم شماری سنہ 2021 میں ہونی تھی لیکن کورونا وبا کی وجہ سے التواع کا شکار ہو گئی۔

ماہرین کا کہنا ہے 1.4 ارب لوگوں کی گنتی کے عمل میں آسانی سے چند سال لگ سکتے ہیں۔

جس کے بعد حلقہ بندیوں کا عمل شروع ہو گا۔ آسان لفظوں میں سمجھایا جائے تو یہ انتخابی حلقوں کی حدود کو دوبارہ بنانے کی مشق ہے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر ایک حلقہ ووٹروں کی ایک جتنی ہی تعداد کی نمائندگی کرے۔

ملک کے مختلف حصوں میں آبادی میں غیر مساوی اضافے کی وجہ سے کچھ نشستوں پر دوسروں کے مقابلے بہت زیادہ ووٹرز ہیں اور حلقہ بندی کی مشق اس مسئلے کو حل کر دے گی۔

لیکن یہ ایک طویل عمل ہے جس میں چند سال لگ سکتے ہیں، جیسا کہ ایک تبصرہ نگار نے بتایا، آخری حلقہ بندی پینل کو اپنی حتمی رپورٹ دینے میں پانچ سال لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 31231 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments