مردہ خانے میں لاشوں کی دیکھ بھال: ’لوگ حیران ہوتے ہیں کہ ایک لڑکی یہ سب کیسے کر رہی ہے‘

لوسی وولیس - بی بی سی نیوز


ایزابیل والٹن اپنا دن لاشوں کے درمیان گزراتی ہیں اور وہ مرنے والوں کو ان کی آخری رسومات کے لیے تیار کرنے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جن سے سٹیسی ڈولی پردے کے پیچھے اس وقت ملی تھیں جب ٹی وی میزبان نے موت کے خوف کا سامنا کیا تھا اور انھوں نے لاش کی تیاری کے عمل کا بغور جائزہ لیا۔

سرد اور جراثیم سے پاک مردہ خانے میں ایک غیر معمولی بو آتی ہے۔

ایزابیل والٹن کہتی ہیں کہ ’ہمارے ہاں ’وینٹیلیشن‘ کا نظام ہے مگر لوگ ان کیمیکلز کے عادی نہیں ہیں جو ہم استعمال کرتے ہیں۔‘

صرف 24 برس کی عمر میں مردہ خانہ کا مینیجر ہونا کوئی معمول کی ملازمت نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ لوگ تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ ’کیسے میں اتنی نوجوانی میں ایک خاتون ہوتے ہوئے یہ سب کر رہی ہوں۔ کیونکہ اس شعبے میں زیادہ تر مرد ہی کام کرتے ہیں۔‘

ایزابیل نے سنہ 2019 میں ناٹنگھم کے ایک مردہ خانے میں اے ڈبلیو لیمن کمپنی کے ساتھ بطور ٹرینی ڈائریکٹر کام شروع کیا۔ وہ 21 برس کی عمر تک یہاں کل وقتی طور پر ملازمت کرتی رہیں۔ اس دوران وہ مردہ خانے میں لاشوں کی دیکھ بھال سے متعلق تعلیم بھی حاصل کرتی رہیں۔

اس شعبے میں بہت کم عمر ہونے کی وجہ سے وہ تربیتی کورسز میں پھنس کر رہ گئیں۔ ان کا خاندان ہمیشہ سے ان کی حمایت کرتا رہا ہے مگر جب وہ اپنے مسقبل کے ارادوں کے بارے میں اپنے دوستوں کو بتاتی تھیں تو وہ دنگ رہ جاتے تھے۔

سٹیسی ڈولی نے حال ہی میں بی بی سی ون کے پروگرام کے لیے مردہ خانے میں کچھ وقت گزارا اور اس دوران انھوں نے موت کے بارے میں اپنے طرز عمل کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ اس متعلق ہو کہتی ہیں کہ موت کا ’ناگزیر ہونے کا غیر معقول خوف‘ ان کے اندر پایا جاتا ہے۔

سٹیسی کے مطابق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہنا چاہتی ہوں مگر مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ یہاں کسی نے مستقل نہیں رہنا۔

لیکن بے خوف ایزابیل کہتی ہیں کہ ہر وقت موت کے گھیرے میں رہنے نے انھیں سکون دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں جانتی ہوں کہ اگر مجھے کچھ بھی ہوا تو میرا خیال رکھا جائے گا۔‘

اس مردہ خانے میں 80 لاشیں ہیں۔ یہاں ہر لاش کو اوسطاً 15-20 دنوں کے لیے رکھا جاتا ہے۔

ایزابیل کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جب کوئی مرتا ہے تو بس آخری رسومات سے پہلے اس کی لاش کو کفن میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ مگر وہ اس لاش کو آخری رسومات سے پہلے بہت احتیاط سے تیار کرتی ہیں تا کہ مرنے والے کے رشتہ دار اور دوست اس لاش کو دیکھ سکیں اور اس کے ساتھ کچھ وقت گزار سکیں۔

وہ لاشوں کو نہلاتی ہیں۔ کنگھا کرتی ہیں یا ان کے بالوں کو مونڈ لیتی ہیں۔ لاشوں کو نیا لباس پہناتی ہیں اور باقاعدہ میک اپ کرتی ہیں۔

ان کے مطابق اگر کوئی مریض بن کر کچھ وقت ہسپتال میں گزارتا ہے تو ان کے گھر والے انھیں بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔ وہ انھیں صاف ستھرا ہی دیکھنا پسند کریں گے۔

وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 65 فیصد لاشوں کا اس طرح خیال رکھتی ہیں کہ وہ مردہ خانے میں خراب نہ ہوں۔ اب یہ مرنے والے کے خاندان پر ہوتا ہے کہ وہ کتنے عرصے کے لیے مردہ خانے میں لاش رکھوانا چاہتا ہے اور لاش کے ساتھ کس طرح کا ٹریٹمنٹ کروانا چاہتے ہیں تا کہ خاص طور پر جب آخری رسومات کے بعد لاش کے دیدار کے لیے کپڑا ہٹایا جاتا ہے تو ایسے میں وہ تر و تازہ نظر آئے۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے کام میں بہت وقت صرف کرتی ہیں۔ ان کی رائے میں ’لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ سب کرنے میں کتنی محنت درکار ہوتی ہے۔‘

لاش کو تر و تازہ رکھنے کے عمل میں لاش کو صاف کیا جاتا ہے اور منھ کو صحیح طریقے سے بند کیا جاتا ہے۔

خون کو ہٹا دیا جاتا ہے اور خاص طرح کا جراثیم کش سپرے کیا جاتا ہے۔ جسم کے اعضا میں موجود لکویڈ یا سیال اور گیسوں کو بھی ہٹا دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ لاش کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے خاص طرح کی خوشبو لگائی جاتی ہے۔

کچھ مذہبی عقائد میں خوشبو لگانے کے عمل کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور یہ عام طور پر کیمیکلز کی وجہ سے سبز تدفین میں استعمال نہیں ہوتا ہے۔

کبھی کبھی اگر کسی کی تکلیف دہ موت ہوئی ہے، تو ایزابیل والٹن کو لاش پر کافی کام کرنا پڑتا ہے۔۔ پہلے خراب ٹشو کو جذب کرنا، اور پھر موم اور خصوصی میک اپ کا استعمال کرنا اس میں شامل ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ ’زندہ لوگوں کے میک اپ‘ کی طرح نہیں ہے۔ ہم مردہ خانے کا میک اپ استعمال کرتے ہیں، لہٰذا یہ ٹھنڈی جلد پر بہتر طور پر رہتا ہے۔‘

موسم سرما دسمبر سے مارچ تک یہاں ڈائریکٹرز کے لیے ایک مصروف وقت ہوتا ہے کیونکہ اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں کہ اس دوران زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ لیکن فی الحال مردہ خانے میں ایزابیل والٹن ایک دن میں تقریباً تین سے چار لاشیں آخری رسومات کے لیے بھیجتی ہیں۔

ان کے مطابق اس مردہ خانے میں ’کوئی کھڑکیاں نہیں ہیں۔ میں اس وقت دھوپ میں نکلتی ہوں جب کافی پینے کے لیے میں باہر نکلتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ سوگوار خاندانوں سے جذباتی ملاقات ہو سکتی ہے۔۔ لیکن وہ پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

ان کے مطابق ’ایک بات واضح ہے کہ آپ انھیں تسلی دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، وہ آپ کو تسلی نہیں دے رہے ہوتے ہیں۔‘

ایزابیل والٹن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شعبے میں معاشرے میں ممنوع سمجھے جانے والے دقیانوسی تصورات کے خلاف برسر پیکار رہنا چاہتی ہیں۔۔۔ اور یہ مردہ خانوں میں کام کر کے اور آخری رسومات میں شرکت سے کر رہی ہیں۔

اگر ان سے کبھی کسی مرحلے پر مدد کے لیے کہا جاتا ہے تو اکثر وہ کام کرنے والی واحد خاتون ہی ہوتی ہیں۔ لیکن حال ہی میں انھوں نے دیکھا کہ ایک آخری رسومات میں چار خواتین خدمات انجام دے رہی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 31231 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments