اٹھارہویں ترمیم اور وسائل کی تقسیم پر سیاست نہ کی جائے


مسلم لیگ (ن) کی لیڈر مریم اورنگ زیب نے اگرچہ اس خبر کی تردید کی ہے کہ پارٹی کی منشور کمیٹی اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو وسائل فراہم کرنے کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے لئے تجاویز پر غور کر رہی ہے۔ تاہم اس تردید سے شبہات ختم نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ تردید کے لیے جاری کیے گئے بیان میں بھی وسائل کو آئین کے مطابق منصفانہ اور موثر طریقے سے استعمال کرنے کی بات کی گئی ہے۔

اٹھارہویں ترمیم میں ملکی پارلیمنٹ کو با اختیار بناتے ہوئے صدر کا عہدہ رسمی حیثیت اختیار کر گیا تھا کیوں کہ ان سے قومی اسمبلی توڑنے کے اختیارات واپس لے لیے گئے تھے۔ البتہ اسی ترمیم کے تحت صوبوں اور وفاق میں وسائل کی تقسیم کا ایسا طریقہ وضع کیا گیا تھا جس کے تحت صوبوں کو عوامی بہبود کے متعدد شعبوں میں با اختیار بنایا گیا تھا اور وسائل میں انہیں زیادہ حصہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اٹھارہویں ترمیم 2010 میں اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی۔ البتہ اس وقت چونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور آصف زرداری صدر کے عہدے پر فائز تھے، اس لیے وہ ہمیشہ اس ترمیم کا کریڈٹ لیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے اختیارات میں اضافہ کے لیے انہوں نے صدر کے طور پر اپنے اختیارات کم کرنا قبول کر لیا تھا۔ ترمیم کے تحت صوبوں کو قومی آمدنی میں سے 57 اعشاریہ 5 فیصد حصہ فراہم ہوتا ہے جبکہ باقی ماندہ وسائل سے وفاقی حکومت قرضوں کی ادائیگی کے علاوہ دفاع اور ترقیاتی مصارف برداشت کرتی ہے۔

روزنامہ ڈان نے ایک روز پہلے خبر دی تھی کہ مسلم لیگ (ن) اٹھارہویں ترمیم میں رد و بدل کی متعدد تجاویز پر غور کر رہی ہے۔ یہ تجاویز پارٹی کی منشور کمیٹی کو موصول ہوئی ہیں۔ بعض تجاویز میں تو اس ترمیم کو مکمل طور سے ختم کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن پارٹی میں وسائل کی تقسیم کے حوالے سے کی گئی ترمیم پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ ڈان سے باتیں کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے متعدد لیڈروں نے کہا تھا کہ پارٹی میں اٹھارہویں ترمیم کے تحت وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار کے بارے میں سنجیدہ تحفظات موجود ہیں۔ ان ذرائع کے خیال میں اس طریقہ سے غیر مستحکم مالی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ اخبار کے مطابق پارٹی شاید اس ترمیم کو مکمل طور سے ختم کرنے کا اقدام نہیں کرے گی لیکن وسائل کی تقسیم کے انتظام میں ضروری تبدیلیاں ضرور ہوں گی۔

مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کا اخبار سے باتیں کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پارٹی اقتدار میں آ کر گورننس کی بہتری کے لیے وسیع اصلاحات کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ اقدامات کرپشن کی روک تھام کے لیے بھی ضروری ہوں گے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ عوام تک سہولتیں براہ راست پہنچ سکیں۔ اسی لئے پارٹی این ایف سی ایوارڈ میں ترمیم کے ذریعے وسائل براہ راست مقامی حکومتوں کو منتقل کرنے کی تجاویز بھی سامنے لا سکتی ہے۔ روزنامہ ڈان نے رپورٹ کیا تھا کہ اس حوالے سے منشور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی اور اس کی رکن مریم اورنگ زیب سے رابطہ کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ البتہ پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے اٹھارہویں ترمیم کے خلاف سازشوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پارٹی ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ مسلم لیگ کی لیڈر مریم اورنگ زیب نے اسی تناظر میں ایک بیان جاری کیا ہے اور یہ تاثر ختم کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آ کر اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے۔

مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ منشور کمیٹی کی سیکرٹری کے طور پر میں اس خبر کی تردید کرتی ہوں۔ ایسی کوئی تجویز کمیٹی کے زیر غور نہیں ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ منشور کمیٹی کے سربراہ یا ان سے اس بارے میں رابطہ نہیں کیا گیا لیکن سیاسی مخالفین کی رائے رپورٹ میں شامل کرلی گئی۔ البتہ مریم اورنگ زیب کے بیان کا یہ حصہ درحقیقت اپنی کوتاہی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ مریم اورنگ زیب یا منشور کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی نے رپورٹ شائع ہونے سے پہلے اس معاملہ کو سنجیدہ نہیں سمجھا اور نہ ہی یہ اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی کے ذریعے وسائل کی تقسیم ایک اہم اور نازک معاملہ ہے جسے محض کسی ایک پارٹی کے منشور میں ایک آدھ فقرے کے وعدے میں تبدیل کرنے کا کوئی اشارہ دینا ممکن نہیں ہے۔ اوہ نہ ہی کسی بھی قومی پارٹی کو اس اہم معاملہ پر سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرنے چاہئیں۔ البتہ بعد میں تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی منشور کمیٹی کو اس حوالے سے کوئی تجویز موصول ہونے یا کمیٹی میں اس پر غور کرنے کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ کسی پارٹی اجلاس میں زیر بحث نہیں آیا اور نہ ہی پارٹی لیڈروں نے مجھے کوئی ایسی ہدایت کی ہے۔

سینیٹر عرفان صدیقی اور مریم اورنگ زیب کے بیانات دراصل ڈان کی رپورٹ سے ہونے والے سیاسی نقصان پر قابو پانے کی کوشش تو ضرور ہیں لیکن اس اہم معاملہ پر لیگی قیادت کا اصل موقف سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ مریم اورنگ زیب نے جو تفصیلی بیان جاری کیا ہے اس میں بھی زیادہ زور اس بات پر صرف کیا گیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم متفقہ طور سے منظور ہوئی تھی یعنی مسلم لیگ (ن) بھی اسے منظور کرنے کے عمل کا حصہ تھی۔ یا انہوں نے اخبار کو ناقص اور گمراہ کن خبر شائع کرنے پر مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی۔ البتہ وفاق اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم کے حوالے جو اہم نکتہ روزنامہ ڈان کی رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے، اس پر براہ راست کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ یہ کہنا بے بنیاد نہیں ہو گا کہ ملک کے اہم سیاسی حلقوں کے علاوہ اسٹبلشمنٹ میں یہ احساس روز افزوں ہے کہ این ایف سی کی وجہ سے صوبوں کو قومی وسائل کا بیشتر حصہ مل جاتا ہے جبکہ قومی دفاع، قرضوں کی ادائیگی اور ترقیاتی اخراجات کی ذمہ داری بہر حال وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

حالیہ برسوں میں دفاعی اخراجات میں اضافے اور بیرونی قرضے بڑھنے کی وجہ سے قرض کی ادائیگیوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو صحت، تعلیم اور فلاح عامہ کے متعدد شعبوں میں ذمہ داری اٹھانا تھی۔ تاہم متعدد شعبوں میں صوبوں کی کارکردگی قابل تحسین نہیں ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کو وسائل میں زیادہ حصہ دینے کا فیصلہ تو کر لیا گیا اور اس پر واہ واہ بھی ہو گئی لیکن سیاسی لیڈر کوئی ایسا میکنزم بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کے تحت اگر وفاق کے وسائل میں کمی اور صوبوں کے وسائل میں اضافہ ہوا ہے تو اسی حساب سے مالی بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری کو بھی محسوس کیا جائے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ مرکز میں ان تمام شعبوں کے لیے وزارتیں بدستور کام کر رہی ہیں جن کی ذمہ داری صوبوں کو منتقل کر کے وسائل تقسیم کیے گئے تھے۔

اس کا ایک حل یہ ہو سکتا تھا کہ اخراجات میں اضافہ کو قومی آمدنی میں اضافہ سے پورا کیا جاتا لیکن یکے بعد دیگرے ملک کا اقتدار سنبھالنے والی تینوں بڑی پارٹیاں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) یا تحریک انصاف قومی وسائل میں اضافے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار نہیں کرسکیں، نہ نئے شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کا اہتمام ہوسکا۔ اسی طرح پی آئی اے اور اسٹیل مل جیسے قومی اثاثوں کو مسلسل قومی معیشت پر بھاری بوجھ کے طور پر لادا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ سے اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے مباحث سامنے آتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی اس بارے میں اکثر بات ہوتی رہی تھی تاہم اسے ملک میں پارلیمانی نظام تبدیل کرنے کی بحث سے خلط ملط کر کے اصل موضوع پس پشت ڈال دیا گیا۔ بطور وزیر اعظم عمران خان متعدد بار یہ اصرار کرتے رہے تھے کہ وفاق غریب اور صوبے امیر ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے مرکزی حکومت اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ تاہم ملک میں سیاسی احتجاج کے عمومی ماحول میں اس اہم موضوع پر نہ تو کوئی سنجیدہ گفتگو ہو سکی اور نہ ہی کوئی سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

اب بھی وہی صورت حال موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے اٹھارہویں ترمیم کے تحت وسائل کی تقسیم کے موضوع پر بات سامنے آئی ہے تو پیپلز پارٹی نے فوری طور سے اسے سازش سے تعبیر کر کے اس کے خلاف سینہ سپر ہونے کا اعلان کر دیا۔ اسی دباؤ میں مریم اورنگ زیب ایک جائز سیاسی معاملہ پر بحث سے گریز کی کوشش کر رہی ہیں۔ حالانکہ تردید کے لیے جاری کیے گئے بیان میں انہوں پارٹی کے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) مرکز سمیت وفاق کے سب یونٹوں کے وسائل میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں مستحکم پاکستان کے لیے وفاق اور صوبوں میں وسائل کے منصفانہ تقسیم کو ضروری قرار دیا ہے۔ اس بیان میں یہ نہیں کہا گیا کہ اٹھارہویں ترمیم میں جو طریقہ وضع کر دیا گیا ہے، وہی نافذ العمل رہے گا کیوں کہ یہی طریقہ آئین اور پاکستان کی عملی ضرورتوں کے عین مطابق ہے۔

قومی وسائل کی تقسیم ایک اہم معاملہ ہے تاکہ نہ تو صوبوں کو محرومی کا احساس ہو اور نہ مرکزی حکومت کمزور ہو۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت ایک طریقہ وضع کیا گیا تھا۔ کسی بھی مالی منصوبے کی طرح اس طریقے کی کچھ خوبیاں اور کچھ کمزوریاں ہوں گی۔ سیاسی لیڈروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ باہم اتفاق سے قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر اس اہم موضوع پر تبادلہ خیال کیا جائے۔ اس کا بہترین فورم پارلیمنٹ ہو سکتی ہے۔ اس لئے انتخابات سے پہلے اس موضوع پر سیاست سے گریز میں ہی سب کی بھلائی ہے۔

البتہ اس حوالے سے یہ غلط فہمی دور کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ صوبوں کو وسائل فراہم کرنے سے عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کا مقصد حاصل ہو گیا ہے۔ اگر صوبے وفاق سے ملنے والے وسائل کو مناسب طریقے سے عوامی بہبود پر صرف کرنے میں ناکام ہیں تو اس انتظام کے نقائص پر بات کرنا اور انہیں دور کرنا ایک قومی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2647 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments