دو قومی نظریہ کس طرح اسلامی ہے؟ (۱)


 \"anwarیہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ فائیو اسٹار ہوٹل کا وسیع وعریض کانفرنس ہال اہلِ علم سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ ایک اہم ترین مسئلے پر غور وفکر کے لیے چوٹی کے مومخ، دانشور، ثقہ مصنفین، صاحب الرائے اسکالر، جید علمائ، مشہور ڈاکٹرز، یونیورسٹیوں کے پروفیسر، قانونی پیچیدگیوں سے باخبر وکلا، سکہ بند صحافی، گویا اہل علم و فکر کی کریم جمع تھی۔ اعلی سطح پر یہ کانفرنس ہورہی تھی۔ اس میں دو قومی نظرےے پر بحث ہورہی تھی کہ یہ کس طرح اسلامی ہے؟ آہستہ آہستہ جب یہ بحث انتہائی شدت اختیار کر گئی تو ایک دانشور نے کہا کہ بانیانِ پاکستان ملک کو ”سیکولر اسٹیٹ“ بنانا چاہتے تھے۔ قائداعظم نے پاکستان کو مسلمانوں کے لیے تشکیل نہ دیا تھا۔ کٹر مذہبی نظریات کے حامل مسلمانوں اور علما نے تو قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔“ اس پر ہم نے کہاکہ تاریخی حوالوں سے ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انگریز کو برصغیر سے بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے اس خطے کے مستقبل کے بارے میں اہلِ علم و فکر اور اکابر علما کے دو نکتہ نظر تھے۔

علماءکے ایک طبقے کا خیال تھا کہ برصغیر کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے بلکہ پورے خطے پر ہماری بالادستی ہونی چاہیے۔ حکومت کے اہم ترین عہدے مسلمانوں کے پاس ہی ہونے چاہیے۔ مسلمانوں ہی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا ہے۔ انگریز نے مسلمانوں ہی کی حکومت پر قبضہ کیا تھا، لہٰذا اب یہ حکمرانی ہمیں ہی ملنی چاہیے۔ ان علماءنے خطے کی تقسیم کی مخالفت کی تھی، اسلامی ریاست کے قیام کے مخالف ہر گز نہ تھے۔ اس نکتہ نظر کے حامل علمائ میں مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا محمد میاں ، مولانا کفایت اللہ وغیرہ تھے جبکہ دوسرے علما کا خیال تھا کہ چونکہ انگریز نے برصغیر پر ڈیموکریسی نافذ کردی ہے۔ اس ڈیموکریسی کے نفاذ کے بعد کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے کہ اس خطے پر مسلمانوں کا غلبہ ہوسکے، لہٰذا ہمیں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ایک اسلامی ریاست کے قیام کی ضرورت ہے۔ اس نکتہ نظر کے حاملین میں مولانا اشرف علی تھانوی ، مفتی شفیع ، مولانا ظفر احمد عثمانی وغیرہ شامل تھے۔ علما کے دونوں ہی گروہ اور طبقے اس خطے میں اسلام کا غلبہ اور نفاذ اور مسلمانوں کی بالادستی چاہتے تھے۔ اس کے طریقہ کار میں اختلاف تھا۔ دونوں کے مقاصد نیک اور ایک ہی تھے۔ دونوں ہی مخلص تھے۔ کسی کی نیت پر رَتی بھر شک نہیں کیا جاسکتا۔

برصغیر کو ”دارالحرب“ قرار دینے کا فتویٰ سب سے پہلے شاہ عبدالعزیز نے دیا تھا۔ اس کے بعد تمام علما نے اس کی حمایت ہی کی۔ کسی نے بھی مخالفت نہ کی تھی۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل مولانا ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہانپوری کی کتاب ”مسئلہ دارالحرب“ اور اسی طرح مفتی محمد شفیع کی کتاب ”جواہر الفقہ“ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مسلم لیگ کی تمام دستاویزات محفوظ ہیں۔ کٹر مذہبی نظریات کے حامل مسلمانوں کے سب سے مشہور ادارے دارلعلوم دیوبند کے مفتی محمد شفیع صاحب کا دوقومی نظریے کی حمایت میں وہ تاریخی فتویٰ بھی محفوظ ہے جو تحریک ِپاکستان کے دوران دیا گیا تھا۔ اس کے حصول کے لےے مسلمانوں کو تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس کا بہت فائدہ ہوا۔ 1937ءکے انتخابات میں مسلم لیگ کو واضح اکثریت نہ ملی تھی کیونکہ کئی مسلمان تقسیم کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار تھے، مطمئن نہ تھے، لیکن جب مفتی شفیع نے قرآن و سنت کے دلائل سے دو قومی نظریے کو ثابت کیا تھا۔ یہ فتویٰ قائداعظم کے حکم پر 1945ءمیں لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیاگیا۔ اس کا فائدہ یہ ظاہر ہوا کہ اس کے بعد 1946ءکے انتخاب میں مسلم لیگ کو کئی خطوں میں واضح اکثریت ملی۔ مسلمانوں کے شکوک و شبہات زائل ہوگئے تھے۔ یاد رہے یہ تحریکِ پاکستان کی اہم ترین دستاویز ہے۔ اس کا مطالعہ حقیقت ِحال کے بہت سے پہلوﺅں کے لیے کافی ہے۔ دارالاسلام کے حصول کی جدوجہد اور اس کے لیے مفتی محمد شفیع کے فتویٰ کو بنیاد بناکر دیکھا جائے تو یہ پوری بحث سمیٹی جاسکتی ہے۔

علامہ اقبال ، مولانا اشرف علی تھانوی اور قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی نہیں ہوسکتے، بلکہ مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں، مگرہندو اپنی سیاسی مصلحت سے کہتے تھے کہ ہندوستان میں جتنی قومیں رہتی ہیں یہ سب ایک قوم ہے۔ بانیانِ پاکستان نے کہا کہ نہیں یہ دو قومیں ہیں، دو ملتیں ہیں۔یہی قرآنی کا اصول ہے۔ قرآن نے دنیا کے انسانوں کی دو ملتیں بتائی ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت ہیں اور کافر دوسری ملت ہے۔ چنانچہ قرآن کی سورت التغابن کی دوسری آیت ہے: ”وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن۔“ دیکھیں!قرآن نے اس جگہ انسان کو دو گروہوں کافر اورمومن میں تقسیم کیا ہے۔ رنگ اور زبان، نسب وخاندان، وطن اور ملک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسانی برادری کو مختلف گروہوں میں بانٹ دے۔ ایک باپ کی اولاد اگر مختلف شہروں میں بسنے لگے یا مختلف زبانیں بولنے لگے یا ان کے رنگ میں تفاوت ہو تو وہ الگ الگ گروہ نہیں ہوجاتے۔ اختلافِ رنگ وزبان اور وطن وملک کے باوجود یہ سب آپس میں بھائی ہی ہوتے ہیں۔ کوئی سمجھدار انسان ان کو مختلف گروہ نہیں قرار دے سکتا۔زمانہ جاہلیت میں نسب اور قبائل کی تفریق کو قومیت اور گروہ بندی کی بنیاد بنادیا گیا۔ اسی طرح ملک ووطن کی بنیاد پر کچھ گروہ بندی ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب بتوں کو توڑا اور مسلمان خواہ کسی ملک اور کسی خطہ کا ہو کسی رنگ اور خاندان کا ہو، کوئی زبان بولتا ہو، ان سب کو ایک برادری قراردیا۔ اسی طرح کفار کسی ملک وقوم کے ہوں وہ اسلام کی نظر میں ایک قوم ہیں۔

ایمان وکفر کی بنا پر دو قوموں کی تقسیم یہ ایک امر اختیاری پر مبنی ہے کیونکہ ایمان بھی اختیاری امر ہے اور کفر بھی۔ لیکن یاد رہے کفار کا ایمان قبول کرنا اختیاری اَمر ہے، لیکن جب کوئی ایمان قبول کرلے تو پھر اس پر اسلام کے تمام احکام نافذ ہوں گے۔ چونکہ اسلام ”الحق“ ہے۔ جب کسی نے بھی الحق قبول کرلیا تو تمام چیزیں قبول کرنی ہوں گی۔ اب یہ اسلام کے دائرے سے نکل نہیں سکتا۔ زبان اور وطن اگرچہ بدلے جاسکتے ہیں مگر زبان ووطن کی بنیاد پر بننے والی قومیں دوسروں کو عام طورپر اپنے اندر جذب کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتی، خواہ ان کی ہی زبان بولنے لگے اور ان کے وطن میں آباد ہوجائے۔یہی وہ اسلامی برادری اور ایمانی اخوت تھی جس نے تھوڑے ہی عرصے میں مشرق ومغرب، جنوب وشمال، کالے گورے، عرب عجم کے بے شمار افراد کو ایک لڑی میں پرودیا تھا۔ مسلمانوں کے بارے میں سورت الحجرات میں فرمادیا: ”انما المومنون اخوة“ یعنی دنیا کے مسلمان تو سب بھائی بھائی ہیں، چاہے ان کی زبانیں اور نسلیں الگ الگ ہوں۔ مقامات جدا جدا ہوں۔ رنگ ان کے جدا ہو، لیکن سب بھائی بھائی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً یہی تعلیم دی تھی۔ قریش کے ابوجہل سے جنگ کی اور بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو سینے سے لگالیا، جو افریقہ سے آئے تھے۔ صہیبِ رومی رضی اللہ عنہ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جو ایران سے آئے تھے ان کو اپنے دامن محبت میں جگہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسل او ر وطن کے لوگوں سے اسلام کی بنیاد پر جنگ کرکے بتلادیا کہ قومیت اور ملت دین کے نام پر قائم ہوتی ہے۔ فقہا اور علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ”الکفر ملة واحدة“ یعنی دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت اور ایک قوم ہیں اور دنیا بھر کے کافر الگ ملک اور قوم ہیں۔
اسی طرح قومی نظریے کی بنیاد مابعد الطیعات بھی ہوتے ہیں۔ یہ ایک اساسی وجہ ہوتی ہے۔ دیکھیں اہلِ کتاب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:”مسلمانو! یہود و نصاریٰ سے کہہ دو کہ: ”اے اہلِ کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آجاﺅ ہم تم میں مشترک ہو، (اور وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رَبّ نہ بنائیں۔“ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو: ”گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں۔“ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ قدرِ مشترک پر بات ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو نہیں پکاریں گے، شرک نہیں کریں گے۔ ہندو اور مسلمان اتحاد کی کوئی صورت نہ تھی کیونکہ دونوں کے مابعد الطبعات یکسر مختلف بلکہ متضاد تھے۔ اتحاد امر محال تھا۔

ہمارے سیکولر حضرات ہیں، ان کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ تو اسلامی تعلیمات کا بغور مطالبہ کیا ہے اور نہ ہی اپنے سیاسی مفکرین کا۔ اسی صدی کے سب سے بڑے امریکی سیاسی فلسفی ”جان رالز“ اپنی آخری کتاب میں خلافتِ عثمانیہ کے دور اور معاشرے کو دنیا کے بہترین معاشرے کے طور پر پیش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اندلس سے بھاگنے والے ہزاروں یہودیوں کو خلافتِ عثمانیہ نے ہی پناہ دی اور آج بھی استنبول میں ان یہودیوں کے گھر موجود ہیں۔ سیکولرازم کے علمبردار اور اسلامی معاشرے کے نقاد و ذرا انصاف سے بتاﺅ! اس سے بڑھ کر اور کیا رواداری ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے مغربی فلسفی ”مائیکل مین“ نے اپنی اےک کتاب میں مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرکے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی خلافت کا معاشرہ غیرمسلموں کے لیے بہترین اور مثالی معاشرہ تھا۔ مسلمانوں کے معاشرے میں غیرمسلموں کے ساتھ بہترین رواداری کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہی بات نیویارک اور ٹائمز کے ایڈیٹر اور سابق صدر بش کی پانچ رکنی کیبنٹ کے ممبر فرید زکریا نے اپنی کتاب ”فیوچر آف فریڈم“ میں تفصیل سے لکھی ہے۔ ہمارے لبرل اور سیکولرازم حضرات اگر اپنے ہی آباﺅ اجداد کی کتابوں کا گہرا اور تفصیلی مطالعہ کرلیں تو ان کی ذہنی الجھنیں دور ہوسکتی ہیں۔ صد افسوس کہ وہ بودے دلائل کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی ناپاک اور ناکام کوشش کررہے ہیں۔

یہی دو قومی نظریہ تھا جس پر پاکستان بنا اور مقصد ”لا الہ الا اللہ“ کی سربلندی تھی۔پا کستان ایک نظریاتی ملک ہے اور ہر نظریاتی ملک کے بارے میں بچوں کو اسکولوں میں اور گھروں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ بچپن ہی سے ان کو اپنا قومی نظریہ بتایا اور سکھایا جاتا ہے۔ روسی اور چینی حکومت نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھی۔ ان کے بچے بچے کو بچپن سے کمیونزم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اسرائیل بھی نظریاتی ملک ہے۔ اس میں بچوں کو بچپن سے یہودیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہمارا ملک پاکستان نظر یاتی ملک ہے۔ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر یہ وجود میں آیا تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نظریہ پاکستان کو پوری طرح نہ ہمارے اسکولوں میں پڑھایاجارہا ہے، نہ ہماری تعلیم گاہوں میں اس کو سکھایاجارہا ہے اور میڈیا میں بھی جس پیمانے پر اسے اجاگر کرنے کی ضرورت تھی، اس پیمانے پر اجاگر ن ہیں کیاجارہا ہے۔ اگر دو قومی نظریہ نہ ہوتا اور کانگریسی جماعت کی بات مان لی جاتی کہ ہندوستان میں رہنے والے سب ایک قوم ہیں تو اکثریت حاکم اور اقلیت محکوم ہوتی۔ حدیث میں آیا ہے: اسلام غالب ہوگا اور مغلوب نہیں ہوگا۔ برصغیر پاک وہند پر مسلمانوں نے کم وبیش ایک ہزار سال تک حکومت کی جبکہ ان کی تعداد 5 فیصد سے زیادہ نہ تھی، مسلمان اقلیت میں تھے۔ لیکن مسلمانوں کے زیر سایہ تمام غیرمسلم بھی بالکل آزادی سے رہتے تھے۔۔ جب ملک میں انگریز نے ڈیموکریسی نافذ کردی تو دور اندیش علما کو اندازہ ہوگیا تھا اور انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ اب اس خطے میں تاقیامت اسلام نظام کا نفاذ ممکن نہ رہے گا۔ چنانچہ انہوں نے فوراً ہی مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ ہمیں الگ ریاست دی جائے، ہمارے لیے الگ ملک ہونا چاہیے جہاں مسلمان آزادی سے اپنی مذہبی عبادات کرسکیں۔ اسلامی قوانین کا نفاذ کرسکیں۔
(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments