غیرت میں نہیں، بےغیرتی سے کئے گئے قتل


انسانیت…. جنسی تفریق کے بغیر ایک مشرف احساس کا نام ہے مگر ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کی تفریق نے انسانیت کو اس قدر بدصورت شکل میں ڈھال دیا ہے کہ اس کی پہچان مشکل ہو گئی ہے۔مزید اس کے اوپر طرح طرح کے بھیس چڑھا دیئے گئے ہیں جن میں ایک غیرت بھی ہے۔ ایک کند ذہنیت کا انسان اس غیرت کو انسانی جان پر برتری دیتا ہے اور اسی موضوع کی ایک کڑی غیرت کے نام پر قتل یا جدید اصطلاح میں Honour killing ہے۔
ہمارے ہاں جب کوئی غیرت کے نام پر قتل کا کیس سامنے آتا ہے تو چند روز کے لئے سوشل کارکن صنف نازک پر کئے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں یا پھر عورت کی عصمت پر کئے جانے والے کسی کام پر کوئی ایوارڈ مل جائے تو ایک طویل بحث شروع ہو جاتی ہے۔ ’غیرت‘ کو لفظوں میں تنقید کا نشانہ بنا کر دوبارہ معاشرے کو سونپ دیا جاتا ہے اور پھر سے مظلوم زندگی کا غیرت مند سفر شروع ہو جا تا ہے۔
اگر وطن عزیز کی بات کی جائے تو اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہر سال 1000 خواتین کو صرف غیرت کے ہاتھوں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔صرف سال 2015ء میں ہی غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 1005 رپورٹ کی گئی ہے۔اس کے علاوہ نہ جانے کتنے کیس ایسے ہوں گے جو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنے۔ خدا جانے کہاں کسی کو سسکیاں دبائے خاموش موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری قوم میں اتنی’غیرت ‘ کہاں سے آجاتی ہے۔
ماضی قریب میں قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا، سمعیہ شاہد کو اس کے شوہر نے قتل کر دیا ، کوثر بی بی اور گلزاراں بی بی کو ان کے بھائی نے وہاڑی میں اس لئے قتل کر دیا کیونکہ وہ اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی تھیں مگر ان کے ’غیرت مند‘ بھائی نے انہیں یہ حق دینا گوارا نہ کیا اور ان سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا۔ فرزانہ پروین، صبا مقصود کو بھی غیرت کے ہاتھوں جان کی بازی ہارنا پڑی۔
آخر یہ غیرت ہمارے مردوں کے لئے اتنا بڑا مسئلہ کیوں بن جاتی ہے کہ وہ انسانیت کی معراج سے ہی گر جاتے ہیں، عقل و فہم کھو بیٹھتے ہیں اور کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والے ناخدا بن جاتے ہیں ۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی بہت کم سنی میں بچوں کو اس ذہنیت سے پروان چڑھایا جاتا ہے کہ عورت معاشرے کا یک کمزور فرد ہے اور مرد کو اس کا حاکم بنایا گیا ہے۔مرد چاہے خود اندر سے کتنا ہی کھوکھلا کیوں نہ ہو اسے بادشاہت کا تاج پہنایا دیا جاتا ہے اور غیرت کے نوالے توڑ توڑ کر اس کے پیٹ میں اتارے جاتے ہیں۔
ہماری اسمبلیوں میں بھی اس حساس معاملے پر سنجیدہ اقدامات کی بجائے صرف ’ خانہ پری‘ ہی ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں Honour Killing کی اصطلاح کی سرا سر غلط ہے۔الفاظ ہتھیاروں کی سی جان رکھتے ہیں۔Honour جیسے لفظ کو Killing کے ساتھ جوڑنا ناانصافی ہے۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے اس حوالے سے دل کو چھونے والی تجویز دی کہ Honour Killing کی بجائے اس شرمناک حرکت کو Shame Killing کا نام دیا جانا چاہیے۔زندگی کا نعم البدل کو ئی شے نہیں ہو سکتی اور کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کی زندگیوں کا فیصلہ کرے۔ پسماندہ علاقہ جات میں تو یہ کام باقاعدہ ’ معززین‘ کی اجازت سے سر انجام دیا جاتا ہے۔’معززینِ علاقہ‘ پنچائیت یا جرگہ کی شکل میں جمع ہو کر ایک نہتی اور بے قصور عورت کی موت کا پروانہ جاری کرتے ہیں۔
سب سے قابل مذمت بات یہ ہے کہ آج بھی جہالت کی گرد تلے ذہنوں کا یہ ماننا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل اسلامی معاشرے کا شعار ہے یا اسلام اس گھٹیا عمل کی تر غیب اور اجازت دیتا ہے۔اس معاملے میں ہمارے علمائے کرام، مفتیان، حکمران اور بالخصوص صحافتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے سے ایسی پست سوچ کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).