دہشت گردی کے خلاف بیانیہ کیسے تبدیل ہو


وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دہشت گردی کے خلاف بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ لاہور میں جامعہ نعیمیہ میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا ہے کہ اب دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے فتوے کافی نہیں ہوں گے بلکہ ان بنیادی تصورات کے برعکس اسلام کا حقیقی پیغام سامنے لانے کی ضرورت ہے، جو اس گمراہ کن پیغام کو غلط قرار دے کہ اسلام اور عقیدے کے نام پر قتل و غارتگری درست طریقہ کا ر ہے۔ اسی نظریہ نے مسلمانوں میں افتراق پیدا کیا ہے اور اسی کی وجہ سے بعض گروہ اسلام کے علمبرادار بن کر پہلے مسلمانوں کے خلاف تکفیریت کے فتوے جاری کرتے رہے ہیں اور پھر انہیں قتل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس طریقہ کو بدلنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کی ان باتوں سے سو فیصد اتفاق کرتے ہوئے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں یہ کام کیسے اور کون سرانجام دے گا۔

لاہور میں میاں نواز شریف کی تقریر سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مسلمان علما کو جھنجوڑنے اور بیانیہ بدلنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک اسلام کے نام پر درسگاہیں اور مدارس چلانے والے علما اور فقہا اور مساجد میں امامت کرنے والے امام اس بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور لوگوں میں نفرت اور انتہا پسندی کے رجحانات پیدا کرنے کی بجائے ، انہیں محبت اور یگانگت سے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تبلیغ کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے اس تقریر میں ملک کے علما سے جو سوال کئے ہیں ، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے دینی رہنما مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی بجائے تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ علما کو سوچنا ہوگا کہ کہ دینی ادارے اسلام کے مبلغ پیدا کررہے ہیں یا مسالک کے عملبردار۔ وزیر اعظم کو یہ سوال کرنے کی ضرورت بھی اسی لئے محسوس ہوئی ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت ملک کے دینی ادارے مسلکی بنیادوں پر عقیدہ کی تعلیم دیتے ہوئے فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات کو ہوا دے رہے ہیں۔ اسی لئے ملک میں دہشت گردی کی اہم ترین بنیاد فرقہ واریت پر استوار ہے۔ انتہا پسندانہ دینی تصورات بھی فرقہ واریت اور مسلکی اختلاف کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ حکومت کی اپیلوں اور ماہرین و مبصرین کے انتباہات کے باوجود اس صورت حال کو تبدیل نہیں کیا جا سکا۔

اس صورت حال میں پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا حکومت اس قدر بے بس ہے کہ وہ دینی مدارس کے مہتمین اور اسلام و عقیدہ کے نام پر سیاست کرنے والے دینی لیڈروں کے تعاون کے بغیر ملک میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف متبادل بیانیہ سامنے لانے اور اس کو عام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اگر وزیر اعظم اور حکومت کی طرف سے اس قسم کی بے بسی کا مظاہرہ کیا جائے گا تو اس ملک میں دین کے نام پر سیاست کرنے والے عناصر اسے حکومت کی کمزوری اور دین کو اپنی اجارہ داری سمجھ کر انتہا پسندی کے راستہ پر گامزن رہیں گے۔ اسی رویہ کی وجہ سے ملک میں ہر عقیدہ و مسلک خود کو درست اور باقی سب کو غلط قرار دینے کا رویہ اپنا چکا ہے۔ دینی رہنما اس طرز عمل کو تبدیل کرنے اور ہم آہنگی اور بین المسلکی قبولیت کے مزاج کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں۔

حکومت کو علمائے دین کی اس کمزوری کا ادراک کرتے ہوئے ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینے والا بیانیہ مسترد کرنے کے لئے خود رہنمائی کرنا پڑے گی۔ اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت منظور کئے جانے والے قومی ایکشن پلان کے تحت مذہبی منافرت اور دینی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس حوالے سے حکومت کی کارکردگی ناقص رہی ہے ۔ عام لوگوں سے لے کر فوج تک یہ شکایت کرتی رہی ہے کہ حکومت قومی ایکشن پلان کے مقاصد پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ وزیر داخلہ نے مدارس کی اصلاحات ، رجسٹریشن اور نصاب کی بہتری کے حوالے سے اقدام کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مداراس کی نمائیندگی کرنے والے وفاق المدارس کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر اس کام کو پس پشت ڈال دیا گیا۔

تاہم لوگوں کی ذہنی تربیت کا کام صرف دینی رہنماؤں یا مدارس تک محدود نہیں ہو سکتا۔ موجودہ دور میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا اس حوالے سے اہم رول ادا کرتا ہے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان دونوں میڈیم پر نفرت انگیز مواد سامنے آتا ہے اور اس کے تدارک کے لئے تادیبی اقدامات اور پابندی لگانے یا سزا دینے کی بات کی جاتی ہے۔ حالانکہ حکومت ملک کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کے ذریعے نوجوانوں کی اکثریت تک ایسا مواد فراہم کرنے کے لئے اقدامات کر سکتی ہے جو ایک دوسرے کے لئے نفرت اور دوری کی بجائے شیفتگی اور قبولیت کو فروغ دیں ۔ ملک کے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانی والی نصابی کتابوں اور اساتذہ کے طرز عمل کے بارے میں افسوسناک خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ ملک میں بیانیہ تبدیل کرنے کی خواہشمند حکومت کو سب سے پہلے اس مواد پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے جو اس کے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے اور ان استادوں کی تربیت کا معیار بہتر بنانا ہوگا جو ملک کی آئیندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں۔

اس کے علاوہ حکمران جماعتوں کا سیاسی رویہ اور ترجیحات بھی ملک میں بیانیہ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ جب حکومت ملک کے انتہا پسند مذہبی رہنماؤں کو فساد اور انتشار کے خوف یا سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے برداشت کررہی ہو تو وہ یہ دعویٰ کرتے عجیب لگتی ہے کہ ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مذہبی رہنماؤں کے دباؤ اور بعض اوقات بلیک میلنگ کی وجہ سے حکومت ابھی تک ملک میں نافذ توہین مذہب کے قوانین پر نظر ثانی کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکی۔ ان قوانین کی وجہ سے سینکڑوں لوگ ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں ۔ جج ان کے مقدمات کی سماعت کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور مروجہ قوانین کے تحت ان شقات کے تحت گرفتار لوگوں کی ضمانت نہیں لی جا سکتی۔ اس طرح بے گناہ لوگوں کو بلا وجہ زیر حراست رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ذاتی مفادات کے حصول یا قضیہ نمٹانے کے لئے توہین مذہب قوانین کا استعمال کوئی غیر معروف طریقہ نہیں ہے۔ حکومت ان قوانین کے یہ سقم دور کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ پھر ملک میں انتہا پسندی اور مذہب کے غلط استعمال کے خلاف بیانیہ کیسے اور کیوں کر تبدیل ہو سکتا ہے۔

وزیر اعظم کو یہ بھی باور کرنا ہوگا کہ ملک میں بیانیہ تبدیل کرنے کا مقصد صرف یہ نہیں ہو سکتا کہ تمام مسالک کے لوگ ایک چھتری تلے جمع ہو جائیں اور ایک دوسرے کے مسالک کے خلاف عناد اور نفرت ترک کردیں۔ جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس ملک میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت ملک میں صرف مسلمان ہی مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہو رہے بلکہ متعدد مذہبی گروہ غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف بھی منظم اور متحرک ہیں۔ مسلمان معاشرہ استوار کرنے کا ایسا تصور سراسر غلط اور ناانصافی پر مشتمل ہوگا، اگر اس میں آبادغیر مسلموں کو بھی مذہبی حقوق کے علاوہ مساوی بنیادوں پر سیاسی اور سماجی حقوق فراہم کرنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali