بلاول بھٹو کی حکمت سے بھرپور باتیں


شدید سیاسی تصادم کے موسم میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں متوازن اور دانش مندانہ تقریر کی ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو تصادم کی بجائے مفاہمت اور تعاون کی حکمت عملی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی بالادستی یقینی بنائے بغیر ملکی نظام کام نہیں کر سکتا۔

بلاول نے اپنی تقریر میں جو باتیں کیں اور جس دردمندی سے قومی سیاست کو تنازعات اور ذاتیات سے ماورا کرنے کا مشورہ دیا ہے، وہ صائب اور بروقت ہے۔ عام طور سے ملک کے سینئر اور تجربہ کار سیاست دانوں سے پارٹی سیاست سے بلند ہو کر وسیع تر مکالمہ و احترام پیدا کرنے کے لیے کردار کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک کے سب سینئر سیاست دان اشتعال اور حرف زنی کی سیاست میں ملوث ہیں۔ آصف زرداری صدر بن کر ’نیوٹرل‘ یا سیاسی طور سے غیر موثر ہو گئے۔ ملک میں کیے جانے والے ہائبرڈ تجربات کی وجہ سے نواز شریف کو پارٹی کی قیادت اور پنجاب حکومت کے ’مشیر‘ کا رول ادا کرنے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اب ان کی امیدوں کا مرکز مریم نواز کی پنجاب میں کارکردگی ہے تاکہ وہ نواز شریف کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھا سکیں۔ البتہ تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد کے بعد عبوری حکومت سنبھالنے کا جو عاقبت نا اندیشانہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ اور اس کے بعد انتخابی ڈھکوسلے کے نام پر 8 فروری کے بعد مسلم لیگ (ن) نے تن تنہا حکومت سازی کا جو فیصلہ کیا، اس نے نواز شریف فیکٹر کو پنجاب کی سیاست سے ختم کر دیا ہے۔ اب عوام سے پہلے جیسی پذیرائی کے لیے مریم نواز اور ان کی نسل کے لیڈروں کو سخت محنت کرنا پڑے گی۔ فی الوقت تو وفاق میں جاری تصادم اور بے چینی ہر آنے والے دن کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے لیے بری خبر لا رہی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف پر اس وقت سیاسی بحران کم کرنے اور تحریک انصاف کے ساتھ معاملات طے کرنے کی سب سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن وہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی سے وزیر اعظم بننے کے نشے میں سیاسی منظر نامہ سمجھنے اور کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے میں ناکام ہیں جس سے ملک میں جاری سیاسی تصادم کم ہو اور نظام کو مستحکم رکھنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جا سکے۔ شہباز شریف کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے تحریک انصاف کے ساتھ کوئی ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہیں کی جا سکی۔ اس مقصد میں ناکامی کے دو بنیادی اسباب کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ شہباز شریف سیاسی کم فہمی کی وجہ سے اس مغالطے میں ہیں کہ اگر انہوں نے تحریک انصاف کو کوئی سیاسی رعایت دی تو اس سے ان کا اپنا سیاسی ’خواب‘ بکھر سکتا ہے۔ یہ سوچ اسی شخص کا خاصہ ہو سکتی ہے جو صرف اقتدار اور کسی خاص عہدے تک پہنچنے کو ہی اپنا سیاسی مطمح نظر سمجھے۔ شہباز شریف کی حد تک یہ بات کافی حد تک یقینی محسوس ہوتی ہے کہ وہ اسے ہی منزل مقصود سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کو راضی رکھیں تو ملک کو درپیش مسائل خود بخود حل ہوتے رہیں گے۔ حالانکہ حقیقی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا۔ انتخابات کے بعد نواز شریف خود چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے خواہشمند تھے لیکن بادی النظر میں اسٹیبلشمنٹ یہ ’خطرہ‘ مول لینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس کے لیے شہباز شریف قابل قبول تھے۔ شہباز شریف یہ خواہش پوری کرنے پر بخوشی راضی ہو گئے۔ اسی لیے نواز شریف کو پیچھے ہٹنا پڑا اور بادل نخواستہ مسلم لیگ (ن) کی صدارت پر اکتفا کرنے پر مجبور ہو گئے۔ حالانکہ ماضی میں جب پرویز مشرف نے نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کو اقتدار دینے کی پیش کش کی تھی تو شریف خاندان اس پر راضی نہیں ہوا تھا۔

موجودہ سیاسی بحران میں شہباز شریف کی ناکامی کی دوسری اہم ترین وجہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی واضح سیاسی ایجنڈے پر افہام و تفہیم کا نہ ہونا ہے۔ شہباز شریف محض اس بات پر خوش ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں وزیر اعظم کے عہدے پر قبول کر رہی ہے۔ حالانکہ انہیں سیاسی عوامل اور مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ میں اپنے ’سپانسرز‘ کے ساتھ یہ طے کرنا چاہیے تھا کہ سیاسی معاملات کو کیسے طے کیا جائے۔ ان میں سب سے پہلے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بارے میں حکمت عملی، عمران خان کے مستقبل کے بارے میں حتمی فیصلہ، تحریک انصاف کے سیاسی کردار اور عوامی مقبولیت کی روشنی میں اسے قومی سیاست میں جگہ دینے کی گنجائش پیدا کرنے کا معاملہ شامل تھا۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے جس کی وجہ سے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ اصل خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار سنبھالنے والا لیڈر اور پارٹی زمینی حقائق کے مطابق معاملات طے کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل بنانے اور اسٹیبلشمنٹ کو اس کے بنیادی خطوط پر متفق ہونے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ عمران خان کی ناکامی کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی اور شہباز شریف بھی اسی لیے ناکام ہیں کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کو کافی سمجھا لیکن یہ نہیں سمجھ سکے کہ اسٹیبلشمنٹ تمام تر طاقت اور اثر و رسوخ کے باوجود سیاسی قوت نہیں ہے۔ اسے ملکی معاملات کو ایک خاص ڈھب سے طے کرنے میں اسی لیے سیاسی لیڈروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی ہوشیار و چابک دست سیاست دان ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کی ضرورتوں کو پورا کرے گا تو دوسری طرف سیاسی عناصر سے تعلقات استوار رکھتے ہوئے نظام مستحکم کرنے اور کسی حد تک اس کا جمہوری چہرہ برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔ عمران خان کی طرح شہباز شریف اس مقصد میں بری طرح ناکام ہیں۔

شہباز شریف نہ تو بنیادی حقوق اور قانونی حدود کے احترام کے بارے میں عدلیہ کے اعتراضات دور کرسکے بلکہ اس کی بجائے براہ راست تصادم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے قانون سازی کے ذریعے عدلیہ کے پر کاٹنے یا اسے اپنا ’حامی‘ بنانے کے طریقے سوچے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سانحہ 9 مئی کے بعد فوج کی شکایات کے مطابق ان واقعات میں ملوث لوگوں کو سزائیں دلوانے اور مابعد 9 مئی سیاسی معاملات کو خوشگوار کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کرسکے۔ سانحہ 9 مئی کے قصور واروں کو سزائیں دلوانا حکومت وقت کا کام تھا لیکن حکومت نے اسے تحریک انصاف کو کمزور، اس کے لیڈروں کو ہراساں اور عمران خان کو کسی بھی صورت سیاسی منظر نامہ سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ حالانکہ سیاسی تدبر کا تقاضا تھا کہ ایک طرف اس حوالے سے فوج کی شکایات دور کی جاتیں تو دوسری طرف ملک کے سیاسی ماحول کو کشیدہ ہونے سے بچایا جاتا۔ البتہ شہباز شریف کو کشیدگی بڑھانے اور سیاسی مخالفین پر پابندیاں لگانے کا طریقہ آسان اور اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کا سہل اور کارآمد راستہ دکھائی دیتا ہے۔ اقتدار کی ہوس میں شہباز شریف یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہے کہ تمام تر دباؤ کے باوجود پیپلز پارٹی نے حکومت کی حمایت کرنے کے باوجود کیوں کابینہ میں شامل ہونے سے گریز کیا ہے۔ اگر وہ اس بنیادی نکتہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو شاید موجودہ مسائل سے گلو خلاصی حاصل کر سکتے تھے یا ان تمام مسائل کا بوجھ کم از کم ان کے کاندھوں پر نہ ہوتا۔

ان تین شخصیات کے علاوہ حکومت کے سینئر وزیروں اور مولانا فضل الرحمان و محمود خان اچکزئی بھی وسیع تر قومی مفاہمت میں کوئی کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہیں بلکہ اپنے اپنے طور پر اشتعال و پریشان حالی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس صورت حال میں بلاشبہ عمران خان اہم کردار ادا کر سکتے تھے۔ کیوں کہ ان کی تمام تر سیاسی ناپختگی کے باوجود وہ طویل عرصہ سے قومی سیاست کا حصہ ہیں اور ایک بڑی پارٹی کے عملی قائد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ بدقسمتی سے 71 سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود وہ بھی سیاسی پختگی اور تدبر کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں۔ انہی حالات میں 8 ستمبر کو منعقد ہونے والے تحریک انصاف کے جلسہ نے تنازعات اور سیاسی اختلافات کا ایک نیا باب رقم کیا ہے۔

اس کا نقطہ آغاز ایک پارٹی کے باقاعدہ اجازت کے تحت جلسہ کرنے کے باوجود اسلام آباد کو کنٹینر لگا کر قلعہ بند کرنا تھا۔ حالانکہ جلسہ گاہ ریڈ زون سے 26 کلومیٹر دور تھی۔ اور اس کا نقطہ عروج 10 ستمبر کو اسپیکر کی اجازت کے بغیر پارلیمنٹ میں داخل ہو کر تحریک انصاف کے متعدد لیڈروں اور ارکان اسمبلی کو گرفتار کرنا تھا۔ ان دونوں اقدامات سے حکومت کی بدحواسی اور پریشانی عیاں تھی۔ حالانکہ سیاست میں زندگیاں گزارنے کے بعد حکومت کے بزرجمہروں کو اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ ایک جلسہ سے کوئی انقلاب برپا نہیں ہو گا اور گزشتہ سال 9 مئی کے تصادم سے نبرد آزما پارٹی اسلام آباد پر دھاوا بول کر اپنے لیے کوئی نیا مسئلہ کھڑا نہیں کرے گی۔ اس کے باوجود ایسی حرکات کی گئیں جن پر سیاسی لیڈر، ہیومن رائیٹس کمیشن اور بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی سب قوتیں یکساں طور سے ناراض و پریشان ہیں۔

تناؤ کے اس ماحول میں بلاول بھٹو زرداری نے کم عمری کے باوجود عقل و فراست سے مسئلہ حل کرنے اور عقل کے ناخن لیتے ہوئے تصادم کی فضا ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’عوام نے اپنے نمائندوں کو منتخب کیا۔ ہم نے سیاست کو گالی بنا دیا ہے۔ ہم باہر جو سیاست کریں وہ ہمارا مسئلہ ہے لیکن ایوان کے اندر ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ آئین کی بالادستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا۔ سیاست اپنی جگہ لیکن ہمیں ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھنا ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ حکومت کا کام آگ بجھنا ہے، مزید آگ لگانا نہیں۔ اپوزیشن کا بھی یہ کام نہیں کہ ہر وقت گالی دے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو دیکھنا ہو گا، انہیں نبھانا ہو گا۔ اگر حکومت یہ سوچے گی کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہے تو یہ ایک دن کی خوشی ہوگی۔ اگلے دن آپ بھی اسی جیل میں ہوں گے۔ اگر ہم آپس کی لڑائی میں لگے رہے تو ملک کیسے آگے بڑھے گا‘ ۔

ایک نوجوان لیڈر کی باتیں سادہ لیکن سنہرے الفاظ میں لکھنے لائق ہیں۔ ملک کے سینئر سیاست دان انہیں محض یہ سوچ کر مسترد نہ کریں کہ بلاول بھٹو کم عمر ہیں یا پیپلز پارٹی بہت بڑی سیاسی قوت نہیں ہے۔ مسئلہ حل کرنے اور راستہ کھوجنے کے لیے روشنی کرن جہاں سے بھی دستیاب ہو، اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن اسی فراخدلی کا مظاہرہ کریں گی جس کی طرف بلاول بھٹو زرداری نے اشارہ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2902 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments