1971ء کی جنگ …. سلیم ملک اور مولانا فضل الرحمن ایک پیج پر


جب مولانا صوفی محمد اور ملا فضل اللہ سوات میں شریعت کے نفاذ کی باتیں کر رہے تھے ۔ پاک فوج نے مزاحمت کی اور علاقے کو کلیئر کر کے وہاں پاکستانی پرچم لہرا دیا ۔ اس آپریشن میں دو طرفہ جانی نقصان تو بہرحال ہوا تھا اور ہزاروں پاکستانیوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے ۔ یہاں مولانا صوفی محمد اور ملا فضل اللہ تھے اور ان کے طالبان تھے تو بنگال میں شیخ مجیب الرحمن اور اس کی مکتی باہنی تھی ۔ سوات میں جو فوجی جنرل اور جوان پاکستان کی رِٹ قائم کرنے کے لیے کامیابی تک لڑے اور جانیں بھی گنوائیں ان کی دانش کی ریٹنگ آپ کی نظر میں کیا ہو گی ؟
وانا اور وزیرستان میں فوج بھیجنے سے متعلق کافی مدت تک سوچ بچار ہوتی رہی دو مختلف آرا پائی جاتی تھیں ، سیاسی ، صحافتی ، فوجی اور عوامی حلقوں میں۔ گریز کی قوتوں کے ساتھ جس طرح جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضربِ عضب کے نام پر اپنے فوجیوں کو لڑا دیا اور ہزاروں فوجی مروا دیئے ، جنرل اشفاق کیانی اس سے گریز کر رہے تھے ۔ آپ کے دیئے ڈاکٹرائن کے مطابق دانش مند تو جنرل کیانی ٹھہرے جنہوں نے گاﺅں اور ماﺅں کے بچوں ( اپنے فوجی جوانوں) کو جنگ اور موت سے بچایا ۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ذی شعور جنگ کو امن پر فوقیت نہیں دے سکتا لیکن امن ہر قیمت پر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک قیمت ہے جو ادا کی جا سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں ۔
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
آپ نے کیوں نہیں یہاں جنرل راحیل شریف کو مشورہ دیا کہ وہ ہتھیار پھینک دیں کیونکہ دونوں طرف نقصان تو مسلمانوں اور پاکستانیوں کا ہو رہاہے جس طرح بنگال میں ہو رہا تھا۔ جنرل راحیل شریف یا کور کمانڈر کیوں نہ اپنا پستو ل ملا فضل اللہ کو دے کر سرنڈر کرلیں تاکہ وہ فاٹا اور KPK کو پختونستان یا طالبانستان بنا لیں اور ہماری ماﺅں اور گاﺅں کے فوجی جوانوں کی جان بخشی کردیں اور مولانا فضل الرحمن بھی راضی ہو جائیں کیونکہ وہ پارلیمنٹ کے جائنٹ سیشن میں شکوہ کر رہے تھے کہ اگر کشمیر میں انڈین آرمی ظلم کر رہی ہے تو فاٹا میں کون کر رہا ہے ۔ میں سلیم صاحب کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ وہ اور مولانا فضل الرحمن ایک پیج پر آ گئے ہیں ۔
خاکم بدہن اگر بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) زور پکڑ جاتی ہے تو وہ پاک فوج کے ساتھ لڑے گی اور بھارت کی مدد بھی اُسے حاصل ہے ۔ جواب میں ہماری آرمی کو کیا کرنا چاہیے ؟ لڑنا چاہیے یا انہیں پھولوں کے ہار پہنا کر، اپنا اسلحہ براہمداغ بگٹی کو بھارت سے بلا کر اس کے حوالے کر کے اپنی ماﺅں اور گاﺅں کے فوجی جوانوں کو موت اور قید سے بچا کر واپس لا کر دانش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ،تاکہ وہ بنگلہ دیش کی طرح آزاد بلوچستان بنا سکیں؟
کراچی میں بھی جناح پور کے نقشے برآمد ہوئے ۔ جس طرح بنگال والوں نے شیخ مجیب الرحمن کو ووٹ دیئے اسی طرح کراچی والوں نے MQM کو مینڈیٹ دیا۔ جس طرح مجیب الرحمن کو بھارت کی سپورٹ حاصل تھی اسی طرح الطاف حسین کو بھی حاصل ہے ۔ یہاں بھی ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز لڑ رہی ہیں اور جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں ۔فوج اور رینجر، تاریخ اور آپ سے سیکھنے کی بجائے ،اپنا اسلحہ الطاف حسین کے حوالے کرنے کی بجائے الٹا ان کا اسلحہ ٹرکوں کے ٹرک بھر کے لے جا رہی ہیں ۔ تاریخ مرتب ہو رہی ہے اور مورخ نے جنرل نیازی کو دانش مند قرار دے دیا ہے تو جنرل راحیل شریف کو تاریخ کس لقب سے یاد کرے گی ؟اب آپ تھوڑی دیر کے لیے تصور اور فرض کرلیں کہ خدانخواستہ ، طالبان، بلوچستان کے علیحدگی پسند اور MQM، طالبانستان ،بلوچستان اور جناح پور بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر آپ کی اور 50 سال بعد کے مورخ کی کیا رائے ہونی چاہیے ۔ وہی نا جو آج ہے جنرل نیازی کے بارے میں ’ جنرل شریف نے ہتھیار ڈال کر عظیم دانشمندی کا مظاہرہ کیا‘ نہیں؟ تو کیوں نہیں ؟ کیا Co-resemblence نہیں ؟ اب اس کے بالکل Vice Versa سوچیں، اگر ہم مقبوضہ کشمیر پر حملہ کردیں تو؟ جیسے بنگال پر بھارت نے کیا، تو آپ کی کیا رائے ہو گی؟ یاد رہے کہ بنگال اس وقت تک پاکستان تھا اور فوج اسی طرح اپنے ملک کی حفاظت اور دفاع کر رہی تھی جس طرح آج مندرجہ بالا علاقوں کا کر رہی ہے اور اپنے ملک کا دفاع کرنا ہر ملک کی فوج کا بنیادی حق اور فرض ہوتا ہے ۔ ہم نہیں ، بھارت ہم پر حملہ آور تھا ، بھارت مداخلت کا ر تھا، جارح تھا ، ہم دافع تھے ، دافع البلیات۔ جنرل نیازی اگر ذرا اور جلدی یہ فیصلہ کرلیتے تو وہ زیادہ دانشمندی ہوتی اور کئی اور جانیں ضائع ہونے سے بچ سکتی تھیں اور اگر بنگال جاتے ہی نہ تو ہو سکتا ہے کہ امن کا نوبل پرائز لے لیتے ۔ سلیم صاحب سے معذرت کے ساتھ جنرل نیازی اور آپ کے گاﺅں کے جوانوں سے زیادہ تو مجھے وہ جوان ، دانش مند لگا جو فوج میں بھرتی ہونے گیا تو کہا کرنل صاحب میری تین شرطیں ہیں نمبرایک باقی فوجی خاکی وردی پہنیں گے اور میں لٹھے کاپاجامہ اور ململ کا کرتہ ۔ نمبردو باقی فوجی دال کھائیں گے اور میں گوشت کریلے ،تیسری اور آخری شرط یہ ہے کہ جنگ کے دنوں میں مجھے چھٹی دی جائے گی ۔ کرنل نے کہا جوان یہ فوج ہے موج نہیں ۔ وہ بھرتی ہو گیا جب جنگ لگی تو ایک گولی اس کے کان کے قریب سے شوں کر کے گزر گئی تو اس نے اپنی بندوق اور استعفیٰ کرنل کو پیش کرتے ہوئے کہا عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے ۔ جبکہ جنرل نیازی نے اپنی گن جنرل اروڑہ کو پیش کرنے میں بہت دیر کردی ۔
مدت ہوئی جناب عبدالقادر حسن کے کالم پر جنرل نیازی نے کروڑوں روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا جس پر عبدالقادر حسن نے اگلے کالم میں لکھا ”میں چوراہوں میں چادر بچھا کر بھیک مانگ کر یہ رقم اس گند پر پھینک کر عدالت کے روبرو مطالبہ کروں گا کہ اس کے بدلے میں جنرل اروڑہ کو دیا گیا وہ پستول قوم کو واپس لا دے “ عبدالقادر حسن سے مصنف کا متفق ہونا ضروری نہیں (وضاحت) ۔
ڈاکٹر نذیر شہید نے کہا ”یہ سر کٹائے تو جا سکتے ہیں ،جھکائے نہیں جا سکتے اور جنرل نیازی نے ”یہ سر جھکائے تو جا سکتے ہیں کٹائے نہیں جا سکتے “
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
نیازی صاحب نے سوچا ہوگا ملک اور شان تو آنی جانی ہیں ، جان سلامت رہنی چاہیے ۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا ، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).