وہ خان صاحب سے مایوس تھا….


میں اسے دس برس سے زیادہ عرصے سے جانتا ہوں۔ میری عمر کے ہر نوجوان کی طرح اسے بھی اس نظام، سیاستدانوں اور کرپٹ اشرافیہ سے سخت چڑ ہے اور وہ بھی تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اس تمنا میں عمران خان صاحب ہی اسے ہمیشہ تبدیلی اور امید کی واحد کرن دکھائی دیتے تھے مگر اس بار جب میں اسے کافی عرصے بعد ملا تو مجھے اس کی آنکھوں میں کچھ مایوسی دکھائی دی۔ بارہا پوچھنے پر اس نے دل چیر کر سامنے رکھ دیا۔ اس کی فریاد اسی کی زبانی ملاحظہ ہو۔
’لالہ میں مانتا ہوں کہ خان صاحب نے اپنی زندگی کا سکون، چین اور گھر بار سب پاکستان کے لیے قربان کیا ہے مگر مجھے پھر بھی خان صاحب سے سخت مایوسی ہو رہی ہے۔ خان صاحب ہر دفعہ ہمیں اٹھا کر پھر اس وقت بٹھا دیتے ہیں جب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ پہلے دھرنے میں تو بات سمجھ بھی آئی تھی کہ ایک قومی سانحہ رونما ہو چکا تھا مگر لاک ڈاﺅن میں کیا کیا؟ ایک ہفتے تک پی ٹی آئی ورکر مار کھاتے رہے مگر خان صاحب سیاسی مصلحت میں بنی گالہ سے باہر نہیں نکلے۔ زیادہ سے زیادہ گرفتار ہو جاتے اور کیا ہوتا؟ اگر گرفتار ہو جاتے تو پاکستانی عوام ان کے لیے تھانوں کو آگ لگا دیتے۔ سارا ملک جام کر دیتے۔ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ انہیں چھو بھی سکتا مگر افسوس…. خان صاحب نے تاریخ میں امر ہونے کا موقع گنوا دیا۔

کچھ دیر میں خاموش رہا۔ جب وہ بہتے جذبات کے دھارے سے باہر نکلا تو میں نے اس سے سوال کیا۔
اگر خان صاحب اس وقت گرفتار کر لیے جاتے اور تحریک انصاف کے کارکن پورے ملک میں آپے سے باہر ہو جاتے تو پتا ہے کتنا نقصان ہوتا؟ خان صاحب صورتحال کو بگاڑنا نہیں چاہتے تھے۔میری بات نے اس کے جذبات کنٹرول کرنے کی بجائے ان پر جیسے پٹرول سا چھڑک دیا۔

لالہ…. تو پھر ہم کون سا انقلاب لینے نکلے ہیں؟ یہ برگرز والی سوچ اپنے پاس ہی رکھو۔ انقلاب تو خونی ہوتا ہے۔ اگر انقلاب کے راستے پر نکلے ہو تو چھوٹے چھوٹے نقصان کو ذہن سے نکال دو اور کم از کم ایک انقلاب کی تاریخ بھی پڑھ لو۔تاریخ جانے بغیر انقلاب لینے نکلو گے تو انقلاب نہیں سپریم کورٹ کا کمیشن ہی ملے گا۔اس نے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا مگر ابھی میرے اندر کے امن پسند ادیب کے تیر کمان باقی تھے۔

ہم قائد اعظم کے سیاسی پیروکار ہیں اور انہوں نے سیاسی انقلاب بغیر کوئی چھڑی لہرائے حاصل کیا تھا۔ ہمیں ہر بار طاقت سے نہیں مصلحت سے بھی کام لینا چاہیے۔
لالہ…. کون سی مصلحت؟ جوڈیشل کمیشن والی مصلحت کا کیا نتیجہ نکلا؟ وہ مقدمہ جو ہم نے ڈی چوک اور پورے ملک میں جیتا وہ ہماری مصلحت نے کمیشن میں جا کے ہار دیا۔اب پوری دنیا میں پاناما کیس میں نواز شریف مجرم ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہماری مصلحت اسے صاف شفاف ایماندار سیاستدان بنا دے۔ابھی پاناما کیس کا نتیجہ آنے والا ہے اس لیے میں اس پر تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا۔

تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ اس دوران میری توجہ چائے کے گھونٹ پی کر اندر کی فرسٹریشن پسینے سے نکالنے میں رہی۔ تھوڑی دیر بعد اس کی آواز نے پھر چونکا دیا۔
لالہ ….کیا کراچی پاکستان کا حصہ نہیں؟
یہ کیسا سوال ہوا۔ہر کوئی جانتا ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔
اور سب سے مظلوم شہر بھی۔
ہاں کہہ سکتے ہیں۔

لالہ…. خان صاحب کو کراچی نظر کیوں نہیں آتا؟ کراچی نے خان صاحب کو تاریخی ووٹ دیے مگر خان صاحب نے کراچی میں کتنے دن گزارے؟

کراچی خان صاحب کافی دفعہ جا چکے ہیں اور کراچی کے ہر مسئلے پر خان صاحب نے ہی سب سے پہلے آواز اٹھائی ہے۔

جی جی ایک دن بلدیاتی انتخابات میں اور ایک دن این اے 252 کی الیکشن کمپین میں۔ اس کے علاوہ بھی بس دو تین دفعہ کراچی کا چکر حادثاتی طور پر لگا ہو گا۔ ہاں دو دفعہ جلسے کے لیے بھی آمد ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ کب کب آئے خان صاحب؟ اور کراچی کے ہر مسئلے پر ایک ٹویٹ کر کے انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا؟
خان صاحب نیشنل لیڈر ہیں۔ وہ نیشنل ایشوز کو زیادہ وقت دیتے ہیں جیسے اب اگر پاناما لیکس کا مسئلہ ہے تو یہ پاکستان کے مسائل کی جڑ ہے اس لیے ان کا زیادہ وقت ادھر گزرتا ہے۔ ایک قومی لیڈر کسی ریجنل مسئلے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا۔ یہ پی ٹی آئی کراچی کی ذمہ داری ہے کہ کراچی کے مقامی مسائل کو زیادہ وقت دے۔
مگرلالہ…. یہ آرگومنٹ شاید کراچی کے عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ پائے گا۔

مگر خان صاحب سپر مین نہیں ہیں انسان ہیں اور مجھے تم بتاﺅ کہ خان صاحب نے تمہیں شعور نہیں دیا؟ کیا تم اب حکمرانوں سے قومی خزانے کا حساب نہیں مانگتے؟ کیا تمہیں اپنے حقوق کا ادراک نہیں ہوا؟ کیا سب ذمہ داری خان صاحب کی ہے؟ ہمارا کوئی کردار نہیں؟

لالہ….لیڈر عوام کو چلاتا ہے۔ عوام کو جو لیڈر کہے گا عوام و ہی کریںگے۔ خاں صاحب کو اب بھی عوام سے ہی گلہ ہے جب کہ دھرنے کے دنوں میں خان صاحب کے جلسوں میں عوام کا سمندا امڈ آیا تھا مگر پھر بھی ذمہ دار عوام ہے؟

جی جی جلسوں میں عوام کا سمندر امڈ آیا تھا مگر ڈی چوک دھرنے میں کتنے لوگ تھے؟ کتنے لوگ اس انقلاب کے لیے جیل جانے کو تیار تھے؟ کتنے لوگ ڈی چوک پر سردی کی راتیں کھلے آسمان تلے گزارنے کو تیار تھے؟ اور تو اور جس بنی گالہ کی تم بات کر رہے ہو جہاں خان صاحب باہر نہیں نکلے تھے تو وہاں کتنے لوگ گھر کے باہر موجود تھے؟ تمہارے کے پی کے ، کے جیالوں کے علاوہ پنجابیوں کی شمولیت کتنی تھی؟

اگر وہاں ایک بندہ بھی تھا تو خدا کی قسم خان صاحب کا فرض تھا کہ وہ وہاں باہر نکلتے پھر جو قیامت ٹوٹنی تھی ٹوٹ پڑتی۔
سیاسی سٹریٹجی سے تم اختلاف کر سکتے ہو مگر خان صاحب کی نیت اور کوشش سے نہیں۔

لالہ میں نے خان صاحب کی نیت سے کب انکار کیا؟ کشمیری سب سے زیادہ خان صاحب کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خان صاحب ہی انہیں آزاد کرا سکتے ہیں اور وہ ہی ان کے لیے سٹینڈ لے سکتے ہیں مگر خان صاحب نے کشمیریوں کو کتنا وقت دیا ہے؟ خان صاحب کوئی ایک فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے جذبات سے فیصلے کرنے ہیں یا مصلحت سے۔ خان صاحب پہلے جذبات میں آ کرایڈیلسٹک فیصلہ کر دیتے ہیں اور پھر عین موقع پر آ کر مصلحت کار بن جاتے ہیں۔ مجھے اس بات میں رتی برابر شک نہیں کہ خان صاحب نہایت ایماندار، محب وطن انسان ہیں اور انہوں نے پاکستان کو جتنا کچھ دیا اور کسی نے نہیں دیا اور پاکستان کے لیے انہوں نے جتنا کچھ کھویا کسی اور نے نہیں کھویا مگر خان صاحب کو یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ پاکستانیوں نے جتنا بھروسہ ان پر کیا کسی اور پر نہیں کیا ،چاہے وہ کرکٹ ہو، شوکت خانم ہو یا سیاست۔ خان صاحب کو پاکستانی قوم کو لیڈ کرنا ہے نہ کہ صرف پنجابیوں کو۔ خان صاحب کی پنجابیوں سے زیادہ ضرورت سندھیوں، مہاجروں، بلوچوں، کشمیریوں اور پختونوں کو ہے اور انہیں ایسے خان صاحب چاہیے جو جذبات اور جنون میں مصلحت پسندی کو مکس نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).