بھٹو کو عدالت میں بے گناہ قرار دینا قوم پر قرض ہے


4 اپریل پاکستان کی تاریخ کے منحوس ترین دنوں میں سے ایک ہے جب ملکی و غیر ملکی ’’شپرزادگان‘‘ اس وطن عزیز پر دندنا رہے تھے۔ اک دفعہ پھر اک مطلق االعنان آمر نے ’’قانون‘‘ کا سہارا لے کر اک مقبول عام رہنما کو مصلوب کیا تھا۔ آمر، عدالتیں اور ان کے مربی یہ سمجھتے تھے کہ وہ جیت گئے ہیں مگر عوام کی عدالت میں مصلوب ’’منصور‘‘ کا درجہ پا گیا اور مارنے والے ’’نمرود‘‘ کہلائے۔ جن سات کے سات ججوں نے قتل پر عملدرآمد کی آخری اپیل محض تکنیکی بنیادوں پر متفقہ طور پر مسترد کی ان میں سے ایک اپنی موت سے پہلے بول اٹھا کہ ہم نے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ نظر نہیں رکھا تھا۔ جب ریاست دروغ گوئی سے کام لیتی ہے تو اس کا نتیجہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے کہ یہ قتل محض اک شخص، اک رہنما کا قتل نہیں تھا بلکہ یہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا قتل تھا۔ اس قتل کے بعد پاکستان پاتال میں گرتا ہی چلا گیا کہ مصلوب کی جواں سال بیٹی نے دامے سخنے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا علم بلند رکھا مگر اک بار پھر ملکی و غیر ملکی ’’شپرزادگان‘‘ حملہ آور ہوئے اور دن دیہاڑے دختر مشرق کو قتل کر ڈالا۔ 2008 سے اس ملک میں جو جمہوری تسلسل گذشتہ 8 سالوں سے جاری ہے وہ اسی مصلوب کا صدقہ ہے جسے محض 51 سال کی عمر میں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ جب بھی ملک پاکستان کی جمہوری تاریخ لکھی جائے گی تو اس کے نمایاں ترین رہنماؤں میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام ہی چمکتا دمکتا ہر کوئی دیکھے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو سر شاہنواز بھٹو کے گھر پیدا ہوئے کہ یہ وہی شاہنواز بھٹو تھا جس نے سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کے لیے انگریز حکمرانوں سے ٹکر لی۔ نہرو رپورٹ کے لکھاری تو شاہنواز جیسے سندھیوں کو گمراہ کرتے رہے کہ بمبئی سے الگ ہوکر سندھ معاشی استحکام حاصل نہیں کرسکتا۔ مگر دھرتی کے لعل نے دھرتی کا قرض اتارا کہ پھر 89 سالہ طویل جدوجہد کے بعد 1932 میں سندھ بمبئی سے الگ ہوا۔ یہی علامہ کی خواہش تھی جس کا مطالبہ خطبہ الٰہ آباد میں موجود تھا۔ سیاست بھٹو کو ورثہ میں ملی تھی مگر انہیں راج نیتی کا بھیانک چہرہ اپنے والد کی سیاسی تنہائی نے دکھایا۔ سر شاہنواز بھٹو قیام پاکستان سے قبل و بعد سندھ کے وڈیروں اور نئے سرمایہ داروں کی ہوسِ اقتدار کا نشانہ بنے۔ مارشل لاء کو قریب سے دیکھنے کے بعد بھٹو کو پاکستان میں حکمرانی کے زریں اصولوں کی بخوبی سمجھ لگ چکی تھی کہ وہ طاقت کی سیاست کے سوتوں سے باعلم تھے۔ مشہور برطانوی انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے لکھاری بجا طور پر بھٹو کی چین دوستی پر معترض ہے تاہم وقت نے ثابت کیا کہ میاں افتخارالدین اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے عبقریوں نے جس پاک چین دوستی کو ممکن بنایا آج ہر پاکستانی اس پر ان کا شکر گزار ہے۔

یاد رہے 1949 کے عوامی انقلاب کے بعد چین کو اقوام متحدہ کی ممبرشپ دینے کی بجائے اک پٹھو جلا وطن حکومت کو چین کی نمائندگی دی ہوئی تھی۔ یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے تسلسل سے عوامی جمہوریہ چین کو اس کا حق دلوانے کے لیے اقوام متحدہ میں تقاریر کیں اور پھر 1972 میں چین کو اس کا حق ملا۔ پاکستان کی سیاسی، عوامی و جمہوری نبض جاننے والے بھٹو کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت کا بھرپور احساس تھا اور وہ جانتے تھے کہ بھارت و پاکستان میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل لازم ہے۔ معاہدہ تاشقند پر انہیں بجاطور پر اعتراض تھا کہ پاکستان کو کشمیر کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی قرارداد کی صورت میں جو اخلاقی و سیاسی برتری حاصل تھی اس پر جنرل ایوب نے سمجھوتہ کرلیا تھا۔ وزارتوں اور شاہی عہدوں کو تج کر آنے والوں کو عوام ہمیشہ جی آیاں نوں کہتے ہیں کہ بھٹو کی مقبولیت میں 1967 میں جو اضافے ہوئے اس میں سب سے نمایاں عمل یہی تھا۔ یہ وہی سال تھے جب پاکستانی بائیں بازو کی سب سے متحرک جماعت ’’نیشنل عوامی پارٹی‘‘ روس چین جھگڑوں کی بھینٹ چڑھ کر پہلے دو اور بعدازاں کئی حصّوں میں بٹ رہی تھی۔ بائیں بازو کے کارکن اور خصوصاً بائیں بازو کے متاثرین سخت اضطراب کا شکار تھے۔ لاڑکانہ کے بھٹو نے سیاسی بصیرتوں سے کام لیا اور پنجاب کے دل، لاہور میں آکر پارٹی بنائی۔ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اسلام آباد اور سندھ کے حکمران انہیں کبھی آگے نہیں آنے دیں گے۔ بھٹو اور اُن کی نومولود پارٹی کی مقبولیت میں وزارت خارجہ سے استعفیٰ، بائیں بازو کے کارکنوں کی شمولیت، سیاست میں مغربی پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ کو اولیت دینا اور روٹی کپڑا اور مکان جیسے طبقاتی نعروں نے نمایاں کردار ادا کیا کہ بھٹو نے بلاشبہ پنجاب اور پنجابیوں کا دل جیت لیا تھا۔ مگر بھٹو کے شکست خوردہ ناقدین نے ان کی مقبولیت کو محض ’’ہزارسالہ جنگ‘‘ کے کھاتے ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔ حالانکہ بھارت مخالف نعروں میں بھٹو جماعت اسلامی وغیرہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے کہ اگر مقبولیت کا یہی معیار تھا تو جماعت اسلامی کو 1970 کے انتخابات میں کم از کم 40 سیٹیں تو جیت جانی چاہئیں تھیں۔

بھٹو نے جن مقاصد پر اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی ان میں بائیں بازو کے کارکنوں اور لبرل مسلمانوں کے لیے اتنہائی کشش تھی۔ چند سال کی مختصر مدت میں انھوں نے اک جم غفیر اپنے اردگرد اکٹھا کرلیا۔ اگر صاحبزادہ یعقوب علی خان، شیر علی پٹودی اور یحییٰ خان وغیرہ متحدہ پاکستان کے حمایتی مولانا بھاشانی کو انتخابات کے بائیکاٹ پر مجبور نہ کرتے تو 1970 کے نتائج بھٹو بھاشانی کے حق میں نکلنے تھے۔

13  سالہ مارشلاؤں کی وجہ سے جب -16 دسمبر کو پاکستان دو لخت ہوگیا تو پاکستان کی اشرافیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ انھوں نے 20 دسمبر 1971 کو اقتدار بھٹو کے حوالہ کیا جو مغربی پاکستان میں سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر تھے۔ 3 فروری 1972 کو جب برطانیہ نے سب سے پہلے بنگلہ دیش کو تسلیم کرتے ہوئے دولت مشترکہ کا ممبر بھی بنانے کا اعلان کر دیا تو بھٹو نے فوراً دولت مشترکہ کو خیرباد کہہ دیا۔ اس فیصلہ کا خمیازہ بھٹو کو بھگتنا پڑا کہ 4 اپریل 1979 کے دن بی بی سی ان کی پھانسی پر خبر جاری کررہا تھا تو اس دن بھی وہ انہیں ’’آمریت پسند لیڈر‘‘ لکھنا نہ بھولا۔ 93 ہزار قیدیوں کو بھارت کی قید سے باعزت طور پر واپس لانا اور قوم کو 1973 کا متفقہ آئین دینا ہی ایسے شاندار کارنامے تھے کہ پاکستانی اشرافیہ کو ان کا ہمیشہ ممنون رہنا چاہیے تھا۔ مگر طوطا چشم اشرافیہ نے وہی کیا جو ’’منصور‘‘ کے ساتھ ہوا تھا۔ بھٹو نے حمود الرحمن کمیشن بناکر 1947 سے 1971 تک کے جرائم کو بے نقاب کرنے کی کوشش بھی کی کہ یہ فیصلہ بھی ان مہروں میں شامل ہے جو ان کے قتل نامہ پر لگی ہیں۔ بھٹو کا ایک اور گناہ یہ تھا کہ انھوں نے 1976 کے آخری مہینوں میں ڈیورنڈ لائن کے قضیہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے واسطے سردار داؤد اور شاہِ ایران سے کامیاب مذاکرات کیے۔ بس ان کی اس جرأت رندانہ پر دیسی و بدیسی طاقتیں تلملا اٹھیں اور انہیں عبرت ناک انجام تک پہنچانے پر سرگرم عمل ہوئیں۔

-4 اپریل 1979 تک سردار داؤد کو ثورِ انقلاب کھا چکا تھا، شاہِ ایران اسلامی انقلاب کے نرغے میں دھکیلا جا چکا تھا کہ تیسرے کردار بھٹو تھے جنھیں جنرل ضیاالحق کی ایماء پر پاکستانی عدالتوں نے پھانسی پر جا لٹکایا۔ آج بھٹو کی پھانسی کو 38 سال ہو رہے ہیں کہ آج اپنے خطہ میں چین و امریکہ کی مرضی سے ہم داؤد، شاہِ ایران اور بھٹو کے خواب کی تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ بھٹو وطن دوست تھے یا وہ جنھوں نے بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا؟ کون کس کا کھیل، کھیل رہا تھا آج 38 سال بعد اس کا تجزیہ کرنا آسان ہے۔ بھٹو کی کچھ پالیسیاں غلط ہوسکتی ہیں مگر ان غلط پالیسیوں کی وجہ سے تو اسے تختہ دار پر چڑھایا نہیں گیا تھا۔ اسے تو اس لیے عبرت ناک مثال بنایا گیا تھا کیونکہ وہ اک نئے بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔ وہ بین الاقوامی ایجنڈا 1979 سے شروع ہوکر 9/11 تک جاتا ہے کہ جن دیسی و بدیسی قوتوں اور کرداروں نے اس ایجنڈے پر عملدرآمد کے ذریعہ مال کمایا انہیں اک دنیا جانتی ہے۔

بغض معاویہ میں بھٹو مخالفین نے وہ حرکتیں کیں کہ الامان الحفیظ۔۔ بھٹو کی بیٹی کو سیکورٹی رسک کہنے والوں نے الطاف حسین پیدا کیے۔ ان حرکتوں کا خمیازہ پاکستانی اشرافیہ نے نہیں بلکہ عوام نے بھگتا۔ فرقہ وارانہ، لسانی اور مذہبی منافرت پر مبنی سیاست کو ہوا دی گئی اور پھر ان گوریلوں کی ایماء پر دلی اور کابل کی فتح کے خواب دِکھائے گئے۔ یوں ملک انتہاپسندیوں اور دہشت گردیوں کا شکار ہوا۔ ان گذرے 38 سالوں میں ہم نے ملک پاکستان میں ان تمام ایجنڈوں کو ناکام ہوتے دیکھا جو محض بھٹو مخالفت اور ڈالروں، پاؤنڈوں کے لیے چلائے جاتے رہے ہیں۔ تاحال یہ تاریخ ہماری درسی کتب (سرکاری و پرائیویٹ) میں لکھی نہیں جاسکتی کہ جب یہ تاریخ درسی کتب میں بھی لکھی جائے گی تو سب سمجھ جائیں گے کہ پاکستان میں اس ایجنڈے کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے جسے 5 جولائی 1977 کے بعد تیز کیا گیا تھا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ان گذرے 38 سالوں میں بھٹو کا نام احترام سے وہ بھی لینے لگے ہیں جو اس کے بدترین مخالف تھے۔ قومی اتحادوں اور اسلامی جمہوری اتحادوں کا زمانہ لد گیا کہ اب میثاقِ جمہوریت کا چلن ہے۔ کیا یہ بھٹو کی فتح نہیں؟ پیپلز پارٹی کو ووٹ پڑیں یا نہ پڑیں، بھٹو کا مقام اس قدر بلند ہے کہ جمہوریت کی لوح پر وہ ہمیشہ تروتازہ رہے گا۔ وہ اب محض پی پی پی کا لیڈر نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کے دل میں بستا ہے۔ افسوس کہ وکلاء تحریک کے باوجود ہماری آزاد عدلیہ نے ابھی تک اس ’’قتل‘‘ پر قوم سے معافی نہیں مانگی۔ حالانکہ لاہور کے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ مرنے سے قبل اعتراف گناہ کرچکے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کی عدلیہ کے معتبر جج صاحبان دباؤ کے تحت کیے گئے اس عدالتی فیصلہ کے خلاف میگنا کارٹا لکھ دیں۔ اب ہمارے مقتدر اداروں بشمول میڈیا کو بھی تاریخ کا قرض اتارنا چاہیے۔ بغض معاویہ میں بھٹو کا تجزیہ مت کریں کہ بھٹو آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).