چائے کا چمچ
کہا جاتا ہے کہ ایک اونٹ کسی ندی میں سے گزر رہا تھا تو کنارے پر کھڑی بھیڑ نے پوچھا کہ بھائی پانی زیادہ گہرا تو نہیں؟ اونٹ نے جواب دیا گھبراؤ مت بس گھٹنوں برابر ہے۔ آ جاؤ۔ یہ سن کر بھیڑ نے بھی پار جانے کے لئے چھلانگ لگا دی مگر تھوڑی ہی دور جا کر ڈوبنے لگی تو اونٹ کو پکارا کہ میں تو ڈوب رہی ہوں جبکہ تم کہہ رہے تھے کہ پانی گھٹنے تک ہی ہے۔ اونٹ نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ محترمہ میں نے تو اپنے گھٹنے برابر بتایا تھا۔
تو دوستو! ناپ، تول، مول کے لئے اتنے ہی مختلف پیمانے تھے جتنے مختلف قبیلے تھے۔ لمبائی کا ماپ کہیں سوتر، کہیں پوروں، کہیں انگلیوں اور ہاتھوں سے ہوتا جیسے ایک ہاتھ دو ہاتھ وغیرہ۔ کہیں قدم میں ماپا جاتا جیسے دو قدم، چار قدم وغیرہ۔ اسی طرح کہیں ہاتھ کو بنیاد بنا کر ماپا جاتا تو کہیں فٹ کا سہارا لیا جاتا۔ جیسے دو ہاتھ، چار ہاتھ تو کہیں کوئی گز کا حساب لگاتا۔
لین دین میں مصیبت پڑ جاتی کہ کسی کی انگلیاں لمبی ہیں تو کسی کی چھوٹی، کسی کا ہاتھ گز برابر ہے تو کوئی بہت چھوٹا۔ کسی کا قدم بہت بڑا تو کسی کا بہت چھوٹا۔ خرید و فروخت کا یہ مسئلہ جب عالمی حیثیت اختیار کر گیا تو سب نے مل بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ نہ انگلیاں نہ ہاتھ، نہ قدم نہ گز۔ طوالت ماپی جائے گی تو میٹر میں۔ اور میٹر کا سائز پوری دنیا میں ایک معیار قرار دے دیا گیا تو جان چھوٹی۔ اب سب کو معلوم ہے کہ کفن کتنے میٹر کا بنتا ہے اور عام سوٹ کی پیمائش کیا ہے۔ اب لینے اور دینے والوں کا ایک ہی پیمانہ مقرر ہو گیا اور مسائل ختم ہو گئے۔
یہی مسئلہ تولنے میں بھی پیش تھا۔ باٹ، سیر، چھٹانک، ماشے تولے، وغیرہ کا مسئلہ درپیش رہا جس کا حل کلوگرام کی صورت میں سامنے آیا۔ جب مائع کی پیمائش کا معاملہ آیا تو وہاں پر بھی کپ، پیالہ، گلاس، گڑوی، پیپا وغیرہ کا معاملہ تھا۔ یہ سب پیالے گڑویاں، پیپے، کپ وغیرہ بھی مختلف سائز کے تھے اس لیے یہاں پر بھی وہی طریقہ استعمال کیا گیا کہ لیٹر کو معیار مان لیا گیا۔ دو لیٹر، چار لیٹر، آدھا لیٹر، ملی لیٹر وغیرہ۔ اس مسئلے کا حل نکالنے کے لئے جو سسٹم بنایا گیا وہ SI یونٹس قرار پایا۔ اب گرم اور نیم گرم، اور ایوریج وغیرہ کی بجائے سیدھا بتایا جاتا ہے کہ اتنے سفر کو دنوں اور گھنٹوں کی بجائے کلومیٹر اور وقت کو سیکنڈوں، منٹوں اور گھنٹوں میں گنا جانے لگا۔ یوں بتانے والے اور سننے والے کے درمیان پیمائش کا کوئی ابہام نہیں رہا۔
اب آتے ہیں ایک نہایت حساس مسئلے کی طرف اور وہ ہے چائے کا چمچ۔ اپ خود ہی بتائیں کہ آپ نے کوئی ایسا چمچ دیکھا ہے جو ہر گھر میں ایک جیسا ہو یا ایک جتنا بڑا ہو؟ حتیٰ کہ ایک ہی گھر میں موجود ہر سیٹ میں ایک چمچ کا سائز دوسرے سیٹ کے چمچ سے مختلف ہوتا ہے۔ کیا آپ نے چائے کا کوئی یکساں چمچ دیکھا ہے جس کا سائز ہر گھر میں بالکل ایک جیسا ہو؟
مسئلہ چمچ کا نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ ادویات کا استعمال اور اس کی مخصوص ڈوز انسانی زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہے مگر اس کی پیمائش کے لیے ایک ایسا پیمانہ بتایا جاتا ہے جو صدیوں پرانا ہے۔ ڈاکٹر آج بھی لکھ کر دیتا ہے کہ دو چائے کے چمچ صبح دو شام۔ اب صبح دوا دیتے ہوئے جو چمچ ہاتھ لگے وہ شام کو نہ لگے تو دوا ایک برابر نہیں ہو سکتی۔ اس سے مریض اوور ڈوز یا انڈر ڈوز کا شکار ہو سکتا ہے۔ چائے کے چمچ کا استعمال ان وقتوں سے کیا جا رہا ہے جب گولیوں کو شیر والی یا تلوار والی یا پھر سبز ٹوپی والی کہا اور ایڈورٹائز کیا جاتا تھا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ شیر والی اس مسئلے کے لیے ہے اور تلوار والی دوسرے مسئلے کے لئے۔
اب دور بدل گیا ہے، پیمانے مقرر ہو گئے ہیں تو چائے والے چمچ سے بھی جان چھڑا لینی چاہیے۔ اگرچہ عام طور پر چائے کے چمچ سے مراد پانچ ملی لیٹر ہوتا ہے لیکن ڈاکٹرز ابھی بھی آپ کو اس حوالے سے آگاہ نہیں کر پاتے۔ آپ 10 ملی لیٹر والی سرنج سوئی اتار کر پاس رکھئے اور پانچ ملی لیٹر بھر کر مریض کو پلائیں تو یہ ایک چائے کا چمچ ہو گا۔ کچھ شربت بنانے والی کمپنیاں ساتھ پلاسٹک کا چمچ بھی پیک کرتی ہیں جس پر چمچ کا مخصوص نشان موجود ہوتا ہے مگر زیادہ تر ایسا نہیں کرتیں۔ آپ ڈاکٹر سے بھی پوچھ کر تو دیکھیں کہ ایک چمچ سے کتنی دوا مراد ہے؟ اس کنفیوژن سے پیدا شدہ صورتحال اپنے معنی میں اونٹ اور بھیڑ کے گھٹنوں والی صورتحال سے زیادہ مختلف نہیں۔
- ایٹمی جنگ ہوئی تو کون بچے گا؟ - 07/05/2025
- چائے کا چمچ - 06/05/2025
- لوگ جنگ کے ماحول میں بھی میمز کیوں بنا رہے ہیں؟ - 01/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).