علامہ جاوید احمد غامدی کون ہیں؟


جاوید احمد غامدی 1951ء میں پنجاب کے ایک ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ایک مقامی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ 1967ء  میں لاہور آگئے۔انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہورسے1972ء میں انگریزی ادب میں بی۔ اے آنرز (پارٹ ون) کیا اور مختلف اساتذہ اور عالموں سے اپنی ابتدائی زندگی میں روایتی انداز میں اسلامی علوم پڑھے۔ 1973ء میں آپ امین احسن صاحب اصلاحی کی شاگردی میں آگئے جنھوں نے ان کی زندگی پر گہرا اثرڈالا۔ آپ مشہور عالم دین مولانا سیّد ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے ساتھ بھی کئی سال تک منسلک رہے۔ دس سال سے زیادہ (1979ء تا 1991ء) عرصے تک سول سروسز اکیڈمی لاہور میں علوم اسلامیہ کی تدریس کی۔

انھوں نے قرآن مجید، اسلامی قانون اور اسلام کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور ان موضوعات پر کئی لیکچر دیے۔ آپ ادارۂ علم وتحقیق ’’المورد‘‘ (www.al-mawrid.org)کے بانی اور صدر ہیں اور اردو ماہانہ رسالہ’’ اشراق‘‘ (www.ghamidi.net/Ishraq.html) اورانگریزی ماہانہ رسالہ ’’Renaissance‘‘ (www.monthly-renaissance.com)کے مدیراعلیٰ ہیں۔ آپ مصعب اسکول سسٹم (www.musab.edu.pk)کے بھی بانی ہیں۔ آپ باقاعدگی سے مختلف ٹی وی چینلزپر اسلام اور دور حاضر کے موجودہ مسائل پرلوگوں کی آگہی کے لیے گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو اور لیکچرز (www.tv- almawrid.org) پر سنے جاسکتے ہیں۔

غامدی صاحب کے فکر پر اپنے دوجلیل القدر پیش رو علما حمید الدین فراہی اور امین احسن اصلاحی کے فکر کی گہری چھاپ ہے۔ تاہم اس ضمن میں انھوں نے کئی انفرادی تحقیقات بھی کی ہیں۔

اپنے اساتذہ کے علمی فکر کے عکس اوران کی اپنی منفرد تحقیقات دونوں کو ان کے قرآن مجید کے ترجمے’’البیان‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ترجمہ قاری کو قرآن کی کلاسیکی زبان کے قریب لے جاتا ہے جس میں حد درجہ ایجاز پایا جاتا ہے۔ الفاظ اور مفاہیم جو آپ سے آپ واضح ہوتے ہیں، اس کو قاری کے فہم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور کلام سے حذف کر دیا جاتا ہے۔ کلاسیکی عربی میں اختصار اور جامعیت پیدا کرنے کے لیے بہت سارے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جو بعض اور زبانوں میں نہیں پائے جاتے۔غامدی صاحب نے کوشش کی ہے کہ ترجمہ میں ان کی رعایت کی جائے اور مقدرات اور محذوفات کو کھولا جائے تاکہ عبارت کا مفہوم کھل کر سامنے آ جائے۔

غامدی صاحب کا ایک اورمنفرد کام دین اسلام کے مشتملات کی تقسیم ہے۔ ان کے مطابق قرآن مجید نے خود کو باعتبارمشتملات دو بڑے عنوانات میں تقسیم کیا ہے: ’الحکمۃ‘ اور’الشریعۃ‘۔ غامدی صاحب کے مطابق ان میں سے مقدم الذکر کا تعلق ایمان واخلاق کے مباحث سے ہے اور مؤخر الذکر کا تعلق قانون کے مباحث سے ہے۔ ’الحکمۃ‘ اور ’الشریعۃ‘ کو غامدی صاحب نے مزید ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔ ’الحکمۃ‘ ’’ایمانیات ‘‘اور ’’اخلاقیات‘‘ کے دو عنوانات پر مشتمل ہے، جبکہ ’الشریعۃ‘ کو انھوں نے دس عنوانات میں تقسیم کیا ہے ، یعنی :’’قانون عبادات‘‘، ’’قانون معاشرت‘‘، ’’قانون سیاست‘‘، ’’قانون معیشت‘‘، ’’قانون دعوت‘‘، ’’قانون جہاد‘‘، ’’حدودو تعزیرات‘‘، ’’خورو نوش‘‘ ،’’ رسوم وآداب‘‘ اور’’ قسم اور کفارۂ قسم‘‘۔ ان عنوانات کے ذیل میں غامدی صاحب نے بہت سے نئے پہلوؤں کو دریافت کیا ہے۔ مثال کے طور پر ذریت ابراہیم کی دعوت ، ارتداد کی سزا، عورت کی گواہی اور دیت ، اختلاط مردوزن کے آداب ، غلامی،مسلم شہریت کے شرائط، قانون میراث اور جہاد میں عام اور خاص احکام کے بارے میں ان کی آرا قارئین کو کچھ نئے پہلوؤں کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ غامدی صاحب کی ایک اور اہم خدمت علم اصول سے متعلق ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’اصول ومبادی‘‘ میں فہم دین کے اصولوں کو مرتب کیا ہے۔ یہ اصول قرآن ، سنت اور حدیث کی تفہیم میں معاون ہیں۔

غامدی صاحب کا ایک اہم علمی کام یہ ہے کہ انھوں نے شریعت کو فقہ سے الگ کیا ہے۔ان کوبالعموم ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جبکہ دوسری انسانی کاوش کا نتیجہ۔ چنانچہ ان دونوں میں فرق ملحوظ رکھنا ایک ناگزیر امرہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں شریعت کو اسلام کے ماخذ سے مستنبط کیا ہے۔

ان کی ایک اور اہم علمی کاوش سنت کے تصور کی تعیین اورتشریح ہے۔ سنت کو انھوں نے حدیث سے الگ چیز قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک سنت قرآن ہی کی طرح مستقل بالذات دین کا ماخذ ہے اور امت کے اجماع اور عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ قرآن ہی کی طرح مستند ہے۔ احادیث، البتہ قرآن و سنت میں موجود دین کی تفہیم و تبیین کرتی ہیں اور اس دین پر عمل کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ ان میں مستقل بالذات دین نہیں پایا جاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے حاصل کردہ علم درجۂ یقین تک نہیں پہنچتا۔ تعین سنت کے اصولوں کی مدد سے انھوں نے سنن کی فہرست مرتب کی ہے۔

غامدی صاحب نے دین کے بنیادی مباحث اور اصطلاحات کو اپنے مضمون ’’دین حق‘‘ میں بیان کیا ہے۔ یہ تصور دین کی ایک مکمل تعبیر ہے جو دوسری دو تعبیرات (تصوف کی تعبیر اور جہادی تعبیر)سے بالکل الگ ایک تیسری تعبیر ہے جو دراصل سلف صحابہ کی نمائندگی کرتی ہے۔

’’برھان‘‘ اور ’’مقامات‘‘غامدی صاحب کی دو اہم کتابیں ہیں۔ پہلی کتاب معاصر علوم پر تنقید اور ان کے تجزیے پر مبنی ہے، جبکہ دوسری مذہبی اور ادبی مضامین کا مجموعہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).