امیر جماعت اسلامی سراج الحق…. بے اصولی کا ننگا دفاع


\"arifآج رات (22فروری ) تقریباً ساڑھے دس بجے میری امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب سے فون پہ گفتگو ہوئی اور بہت بری رہی کیونکہ ان کا جو رہا سہا مثبت تاثر پردہ ذہن پہ تھا ، وہ بھی جاتا رہا…. یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان اور رہنماو¿ں سے کوئی خوہ کتنا ہی اختلاف کرے لیکن اس بات پہ شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ جماعت کے وابستگان بالعموم نرم گفتار، شیریں کلام، تکبر سے دور اور عاجزی کا پیکر ہوتے ہیں لیکن آج امیر جماعت سے میری فون پہ جو مختصر گفتگو ہوئی ہے اس سے مجھے وہ متکبر بھی معلوم ہوئے اور بدمزاج بھی اور یہ دونوں اوصاف عموماً کند ذہنی اور بد اصول ذہنیت کا شاخسانہ ہوتے ہیں ۔ اگرچہ ان سے قبل منور حسن صاحب بھی خاصے سخت گفتار آدمی تھے لیکن وہ سچے اور کھرے آدمی تھے اور اصولوں کے لئے ننگی تلوار بنے رہتے تھے اور لگتا یوں ہے کہ سراج الحق موقع پرستی اور بے اصولی کے لئے ننگی تلوار بن چکے ہیں ۔

میری جو گفتگو موصوف سے ہوئی اس میں میں نے اپنا تعارف قومی زبان تحریک (سندھ) کے صدر کی حیثیت سے کرایا اور بتایا کہ میں وہی ہوں جو سوشل میڈیا پہ آپ کی اس پالیسی پہ تنقید کررہا ہے کہ کیوں آپ کی مخلوط حکومت نے خیبر پختون خوا میں اردو کی جگہ انگریزی لابٹھائی ہے اور جس کے چند مضامین ڈاکٹر فیاض عالم نے آپ کے حالیہ دورہ کراچی میں آپ کو پڑھوائے بھی تھے تو انہوں نے میرے کسی مضمون کے مطالعے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جس پہ میں نے عرض کی کہ خود ڈاکٹر فیاض عالم صاحب نے اسکی تصدیق و توثیق کی ہے تو حضرت سٹپٹا کر چپ ہوگئے….

اس کے بعد میں نے ان سے استفسار کیا کہ چند ماہ پہلے جب آپ کی ہماری تنظیم ’قومی زبان تحریک‘ کے مرکزی رہنماو¿ں کے وفد سے ملاقات ہوئی تھی تو آپ سے انہوں نے یہ پوچھا تھا کہ خیبر پختون خوا میں اردو کوکو اسکولوں سے فارغ کیوں کیا گیا تو آپ نے یہ عذر خواہی کی تھی کہ وہاں ہمارے پاس تعلیم کی وزارت نہیں ہے اور حکومت میں ہونے کے باوجود اختیارات بھی نہیں ہیں…. اس پہ فرمایا کہ ’جی‘…. تب میں نے کہا کہ جناب یہ کیا بات ہوئی؟ اگر اختیارات نہیں ہیں تو حکومت کیوں نہیں چھوڑ دیتے تو اس پہ موصوف یکدم بھڑک اٹھے اور کہا کہ ’ کیا آپ مرا احتساب کررہے ہیں ؟ یہ کوئی سوال ہے کرنے کا ؟ آپ کیسے صدر ہیں کہ آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کیسے سوال کئے جاتے ہیں…. میں نے عرض کی کہ ’لیکن میرے اس سوال میں بھلا کیا غلطی ہے؟‘ تو حضرت سراج الحق صاحب نے تلملا کر تلخی سے کہا کہ ’ہم اس معاملے میں آپ کے مرکز سے رابطے میں ہیں اور صرف ان کو جواب دے دیا ہے اور انہوں نے اس پہ کوئی اور بات نہیں کی تھی تو پھر آپ ایسے سوالات کیوں کررہے ہیں‘ ۔ تب میں نے کہا کہ پھر آپ سے بات کرنا ہی بےکار ہے کیونکہ نفاذ اردو سے متعلق سوال کرنا میرا کیا، ہر عاشق اردو کا حق ہے…. اس پہ فون بند ہوگیا۔

سراج الحق صاحب سے بات کرنے کے بعد کافی دیر تک تو میں شدید صدمے سے دوچار رہا۔ پھر میں نے یہ سب احوال بتانے کے لئے جماعت اسلامی کے سندھ کے امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صاحب کو فون کیا اور اس کے باوجود کہ چند روز پہلے میں نے ان سے نہایت سخت سوالات کئے تھے اور جن کا انہوں نے بہت نرمی و شائستگی سے جواب دیا تھا ، ان کے لہجے میں تلخی مطلق نہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب جہاز میں تھے اور لاہور میں جہاز لینڈ کررہا تھا۔ لہٰذا مختصر بات کرکے فون بند کردیا تاہم اس مختصر بات چیت میں بھی ڈاکٹر صاحب کا لب و لہجہ ویسی ہی نفاست کا حامل پایا کہ جو جماعت اسلامی کی شناخت رہا ہے۔ بعد میں بھی میں یہی سوچتا رہا کہ کیا بے توقیری ہے اس مسند کی کہ جس مسند پہ کبھی ابوالاعلیٰ مودودی بیٹھتے تھے آج اس پہ سراج الحق جیسے افراد براجمان ہیں کہ جو ہر قیمت پر اقتدار کے لئے اور چند وزارتوں کے لالچ میں بے اصولی کو ترجیح دینے کا مسلسل ارتکاب کئے جا رہے ہیں اور درویشوں کی اس جماعت کو سوداگروں کے مجمع میں بدلتے جا رہے ہیں اور کہنے کو خود بھی درویش دکھائی دیتے ہیں مگر ایسے درویش…. ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments