بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں


قرآن پاک کی سورہ الحجرات (49) کی آیت نمبر 12 کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے:

”اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے اور خدا کا ڈر رکھو۔ بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ “

اس سلسلے میں صحیح بخاری جلد سوم میں حدیث نمبر 1009 کچھ یوں ہے:

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم بدگمانی سے بچو۔ اس لیے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور کسی اور کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ غیبت کرو اور نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو۔ “

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ کسی پر شک یا گمان کرنے اور اس پر جھوٹا بہتان لگانے سے اللہ کریم اور نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ چلیے تاریخ پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔

1947میں مولانا حسرت موہانی سے کسی نے پوچھا کہ آپ پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے؟ ایک حسرت بھرے لہجہ میں ٹھنڈی سانس لے کر بولے، ”دونوں جگہ جذباتی جنونیت کا دور دورہ ہے اور اپنی تو ہر دو جگہ جان خطرے میں رہے گی۔ یہاں رہے توجانے کب کوئی ہندو انتہا پسند ”مسلمان“ کہہ کر مارڈالے۔ پاکستان میں یہی کچھ کسی جوشیلے مسلمان کے ہاتھوں ہو سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت میں رہ کر ”مسلمان“ کی موت مرنا بہترھے۔ پاکستان میں رہ کر کافر کی موت مرنے سے۔ “

آج پولیس کی تفتیش کے دوران مشال خان کے خلاف کوئی شواہد نہیں ملے۔ بلکہ اس کے کمرے کی دیواروں کی تحاریر نے واشگاف اعلان کیا کہ وہ اللہ کرہم اور ہمارے پیارے پیغمبرؐ کے لیے محبت اور عقیدت کے جذبات رکھتا تھا۔

“Allah is the greatest and Prophet Muhammad (PBUH) is the messenger of God”

ایک شک اور بدگمانی نے ایک انسان کی زندگی کے پرخچے اڑا دیے اور سینکڑوں لوگوں کے گروہ نے اس بدگمانی کے پودے کو بنا تحقیق کیے ایک تناور درخت بنا دیا۔ گمان کی بنیاد پر رزلٹ بنا اور اس رزلٹ کی بنا پر فیصلہ ہوا جس میں ایک ماں کی عمربھر کی محنت رائیگاں چلی گئی۔ وہ ماں جو اپنے بیٹے کے گھر آنے کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی۔ اس ماں کو مشال کی لاش کا استقبال کرنا پڑا۔ مشال کے باپ کو اپنے بوڑھے ہاتھوں سے اپنے جوان بیٹے کو مٹی میں اتارنا پڑا۔ یہ واقعہ کسی گاؤں میں یا کسی قبائلی علاقہ میں نہیں پیش آیا بلکہ اس کی جائے وقوعہ ایک یونیورسٹی ہے ایک درسگاہ۔ جہاں والدین اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے بھیجتے ہیں۔ علم کی روشنی سے منور ہونے بھیجتے ہیں لیکن اس واقعے نے تو ایک درسگاہ کا مفہوم بدل دیا اور علم کے حصول کا مقصد ہی ختم کر دیا۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اب درسگاہوں کا کیا جواز رہ گیا؟ اور ہم کس قسم کے علم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں؟ اعلٰی تعلیم کے بعد بھی ہمارے اندر کے جانور ٹیم نہیں ہوئے۔ افسوس صد افسوس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).