مشال خان! ہم اہل تذبذب کو معاف کر دو


جواں سال مشال خان کی شہادت کے مناظر دنیا بھر نے دیکھے، ہر وہ آنکھ جو مذہبی منافرت کے سرمے سے آلودہ نہ ہوئی تھی، اس انسانیت سوز واقعے پر اشک بار ہوئی۔ ہم نے ملاحظہ کیا اور شاید محسوس بھی کیا کہ چار دہائی پہلے بوئے جانے والے اندھیروں کے ہاتھ کتنے لمبے ہو چکے ہیں۔ اندھیرے اب اڑنے کی صلاحیت پیدا کر چکے ہیں ، جہاں چاہے اپنے پر پھڑپھڑا کر روشنی کے میناروں کو زمین بوس کردیں۔ مشال کے خون ناحق کے بعد دو دن تک منافرت کی سوچ ملک کے طول و عرض پر چھائی رہی،خوف ہر گلی و کوچے میں پہرے دینے لگا اوراپنی رٹ کو قائم کئے رکھا۔ برملا نہ سہی، دل ہی دل میں متذبذب اکثریت سفاک قاتلوں کو قومی وقار اور اسلامی عظمت کو بچانے والوں کے طور پر پہچاننے لگی۔ امت جیسے اخبارات نے معاملے کو جذبات کے فطری بہاو کا نتیجہ بتایا، بیشتر ریاستی، مذہبی اور سماجی اداروں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ اہل اقتدار اورسیاسی پارٹیاں اہل کوفہ کی طرح تذبذب کی تصویر بنے رہے۔البتہ پاکستان میں کمزور اور غیر موثر سمجھی جانے والی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کھلی جارحیت اور سفاکی کو سرعام چیلنج کیا، سڑکوں پر نکل آئے اور واقعے کی شدید مخالفت کی۔

جب پولیس اور خفیہ اداروں کی رپورٹس سامنے آئیں کہ انہیں توہین رسالت کا کوئی ثقہ ثبوت ہاتھ نہیں آیا۔ بد گمانی کے بادل چھٹ گئے ، مشال کی معصومیت کا چاند نظر آگیا تھا، اب کیا دیکھا کہ خاموش تماشائیوں کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو جاری ہیں، کلیجہ پھٹ رہا ہے، شکوﺅں کا ایک طوفان امنڈ آیا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ خبر نے ایسا ہی تاثر جنریٹ کیا جیسے رویت ہلال کمیٹی محرم کا چاند نظر آنے کی خبر سناتی ہے۔ کیا زید کیا بکر سب نے سینہ کوبی شروع کر دی، ہائے مشال، ہائے مشال کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ مذہبی علما، قوم پرست تنظیمیں ، دائیں اور بائیں بازو کے تمام تر بد خوا اور بہی خوا جوق درجوق سڑکوں پر نکل آئے اور اس بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کی۔ پانامہ کیس کی مصنوعی سنسنی خیزی بھی مشال کی کرنوں کو ڈھانپنے میں ناکام رہی۔ مشال خان کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہونے لگا، مشال اب افق پر سفیدہ سحر کا ستارہ بن چکا۔

غالباً گزشتہ جمعرات کو مشال خان کے رشتے دار اورگاﺅں کے سینکڑوں لوگ جو ان کے جنازے میں شریک نہیں ہو پائے تھے، اقبال شاعر کی قدآور شخصیت کی اوٹ میں سینکڑوں لوگ جرگہ لے کر ان کی قبر پرحاضر ہوئے۔ مشال کی خاک سے دست بستہ معذرت کی، اپنی ناسمجھی پر ندامت کے آنسو بہائے ، زار و قطار روئے اور ان کو انصاف دلانے کا عہد کیا۔ ایسا ہی لگ رہا تھا کہ اہل کوفہ اب معرکہ حق و باطل کے پیچ و خم کو سمجھنے لگے ہیں، اب انہیں صاف پتہ چلا ہے کہ ان کی تلواریں انہی کے ساتھ ہوں گی جن کیلئے ان کے دل دھڑکتے ہیں۔

لیکن مشال خان کو انصاف دلانا اتنا آسان بھی نہیں۔ ان کی صف میں کھڑے ہونے والوں کو ابھی ایک اور سنگ گراں رستے سے اٹھانا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دو ہفتے تک چپ سادھ لینے کے بعد رجعت کی قبائے دریدہ سے شک اور گمان کے ایک اور بچھڑے کا جنم ہوا ہے۔ ضلع صوابی کی سطح پر ایک خودساختہ سیاسی و مذہبی کمیٹی منظر عام پر آئی ہے۔ مقامی اخبار کے مطابق کمیٹی میں جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی سمیت اے این پی کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ کمیٹی نے موقف اپنایا ہے کہ جرم ثابت ہونے تک تمام گرفتارشدگان کو باعزت رہا کیا جائے، اور جب جرم ثابت ہوں تو انہیں واپس لاک اپ میں ڈالا جائے۔ پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب عوامی دباﺅ کے پیش نظر عدالتیں اس کیس میں سرگرم عمل ہو ہی چکی ہیں، سوموٹو لیا گیا ہے، تو اس کمیٹی کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟۔

اس سوال کا جواب کمیٹی کے جاری کردہ بیان میں وضاحت سے دیا گیا ہے۔بیان میں یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ تحقیقات کی موشگافیاں گرفتار ملزمان کو مجرم سے غازی بنا دیں ، اور اگر اتنے سارے غازی جیل سے برآمد ہوئے تو ایک اور جھگڑا شروع ہوسکتا ہے۔ وہ یہ کہ اگلے سال خیبر پختونخوا کی تدریسی کتب میں غازی علم دین اور قاضی حسین احمد کے پہلو میں کس غازی کی تصویر اور سوانح چھپے گی۔کیا اس عبارت کو لکھنے کا پراجیکٹ اوریا مقبول جان کو دیا جائے گا ، یا پھر کوئی دوسرے عباسی (جو اوریا مقبول جان نہیں ہیں)اس پر عرق ریزی فرمائیں گے؟۔ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو اس صورت میں بغیر ڈھکن کے مین ہول کی طرح ہمیں اپنی موجودگی کا پتہ دے سکیں گے۔

لیکن اس صورتحال میں اہل کوفہ کے تذبذب کا کیا بنے گا یہ اپنی جگہ پر ایک اہم سوال ہے جس کا تذکرہ کسی بھی درسی کتاب میں نہیں ملتا۔ ہو سکتا ہے جو لوگ مشال خان کی خاک سے معافی مانگنے گئے تھے، وہ الٹے پیر آئیں۔ عشاق کے قافلے کی روداد سنانے والے تو یہی بتاتے ہیں کہ ظاہریت اور عشق کی جنگ میں خون ہر بار عشق کا ہی ہوا ہے۔ ریاکار ظاہر بینوں نے ہر موسم میں باطنی خوبصورتی کو دیکھنے اور سمجھنے میں کوتاہ بینی سے کام لیا ہے۔ اس میں ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے شاید۔ کیونکہ ہزار ہا سال گزرنے کے بعد بھی ہجوم کی نفسیات میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ہجوم کی سوچ کے گردجو لکیر کھینچی جاتی ہے وہی ان کی شناخت اور وجود کا جواز بنتا ہے۔ ہجوم  میں باطنی خوبصورتی اور داخلی ذکاوت کو دیکھنے سمجھنے والے کہاں ملتے ہیں، وہ تو پتنگیں لوٹنے والوں کی مانند ، یا پھر گیارہویں کھلاڑیوں کی طرح کسی سانحے کی تلاش میں رہتے ہیں۔لونڈوں کے اس جم غفیر میں کہیں حضرت جنید بغدادی سامنے آجاتے ہیں اور کہیں شیریں یار یوسفزئی کی طرح کا ایک عام شخص واردہو جاتا ہے۔پتنگیں لوٹنے والے مانجھا پھینکتے رہتے ہیں، بھیڑ پتھر برساتی رہتی ہے، باطن شناس پھول سے وار کر دیتے ہیں،کمیٹیاں بنانے والے کمیٹیوں کے کالے پانی سے سیاسی معیشت کا مکھن کشید کر رہے ہوتے ہیں اور ہم جیسے لوگ تذبذب کی چکی کے پاٹوں کے بیچ پستے رہتے ہیں، اپنی شناخت کے ختم ہونے پر ہر بار ماتم کرتے ہیں، اور پھر منوں مٹی تلے دفن روحوں سے معافی کے خواست گار ہوتے ہیں۔
حامی بھی نہ تھے، منکر غالب بھی نہیں تھے
ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے         (افتخار عارف)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).